- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Meri Zindagi By Angel Urooj
Forced Marriage | After Marriage | Class Difference | Romantic novel
یسپتال کے کمرے میں ان دونوں کا نکاح ہوا پہلی نظر میں وہ لڑکی اسے بےحد نا پسند آئی مگر باپ کے ہاتھ مجبور ہوکر اسے نکاح کرنا پڑھا اس لڑکی کے باپ نے اسکے بابا کی جان بچانے کے لئے انکے حصے کی گولی اپنے سینے پر کھائی تھی۔ اب اور لڑکی اس دنیا میں یتیم تھی اور کچھ ہی دیر میں اسکی بیوی بن کر اسکی زندگی میں شامل ہوگئی۔۔۔
کس کا نکاح ۔۔۔ اسنے حیرت سے پوچھا ۔
تمہارا اور زمدہ کا ۔۔۔ منان صاحب اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے سکون سے کہتے ریان کو زور دار جھٹکا لگا گئے۔
واٹ۔۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔۔۔ ریاں کو لگا جیسے اس سے سننے میں کچھ غلطی ہوئی ہے۔
ریان بیٹا اندر جو شخص زندگی اور موت کے بیچ جھول رہا ہے نا اگر وہ نا ہوتا تو آج تمہارا باپ شاید یہاں نا کھڑا ہوتا۔۔۔
اس شخص نے تیس سال پہلے تمہارے باپ کے حصے کی گولی اپنے اوپر کھائی تھی جس وجہ سے اسکی ایک کڈنی بھی ڈیمج ہوگئی تھی۔۔۔ جانتے ہو اگر وہ بیچ میں آکے مجھے نا بچاتا تو وہ گولی تمہارے باپ کا دل چیر کے گزر جاتی ۔۔ مگر مجھ پہ ہوئے حملے کو اسنے اپنے اوپر لے لیا۔۔۔
اور آج جب وہ موت کے دہانے پہ کھڑا اپنی بیٹی کی فکر میں تڑپ رہا ہے تو میں کیوں اسے تڑپنے دوں ۔۔۔ منان صاحب نے اسے افسردگی سے ساری بات بتائی
تو آپ انکے احسان کا بدلہ اس طرح سے اتارنا چاہتے ہیں۔۔۔ دو قدم ان سے پیچھے ہوتے سپاٹ لہجے میں استفسار کیا۔
بیٹا میں صرف اس شخص کے کام آنا چاہتا ہوں ۔۔ وہ اپنی بیٹی کو لے کے بہت پریشان ہے ۔۔ اگر ایسے میں میں اسکی یہ پریشانی دور کردوں تو یقیناً اسے سکون آجائے گا۔
اگر اسے کچھ ہو گیا تو اسکی بیٹی اس دنیا میں اکیلی ہو جائے گی اور یہ بات اسے سکون نہیں لینے دے رہی ۔۔۔
پلیز بیٹا مان جاؤں۔۔۔ زمدہ کو ایک محفوظ پناہ دے دو۔۔۔ ایک ایسی پناہ جہاں وہ حق سے رہ سکے۔۔۔ اسے ایسا نا لگے کے وہ کسی پہ بوجھ ہے ۔۔ اس بچی کو اپنا لو۔۔۔ منان صاحب نے پیار سے سمجھایا۔
ریان نے ایک گہرا سانس بھرتے اپنے بابا کو دیکھا ۔۔۔ وہ اپنا احسان چکانے کے لیئے اسے بلی کا بکرا بنا رہے تھے۔۔۔ کم سے کم ریان کو تو زمدہ سے نکاح کرنا ایک بلی ہی لگ رہی تھی۔
وہ کسی معصوم سی پڑھی لگی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا مگر یہاں تو اسکے پاپا نے اسکے سارے خوابوں پہ پانی پھیر دیا تھا۔
میری زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے آپ کو ایک بار مجھ سے پوچھنا چاہیئے تھا۔۔۔ ریان سنجیدگی سے بولا تو منان صاحب نے آگے بڑھتے اسکو دونوں کندھوں سے تھاما۔
ریان میں نے اس مان کے ساتھ تمہارے اور زمدہ کے نکاح کی بات کی تھی کہ تم مجھے کبھی انکار نہیں کرو گے ۔۔۔۔ تم میرے بیٹے ہو میں تھوڑا تو حق رکھتا ہوں نا تم پہ ۔۔۔ منان صاحب دکھ بھری سانس بھرتے بولے تو ریان نے بے بسی سے انہیں دیکھا۔
رات کے نو بجے آئی سی یو میں پہلی بار مریض کے علاوہ ایک سے زیادہ بندے موجود تھے۔۔۔
مولوی صاحب کے ساتھ گواہوں کے طور پہ منان صاحب کے دو وکیل موجود تھے۔
نکاح نامہ فِل کردیا گیا تھا بس لڑکے لڑکی کی رضامندی چاہیئے تھی۔۔۔ جو منان صاحب کے کہتے ہی مولوی صاحب زمدہ کی جانب متوجہ ہو گئے تھے۔
زمدہ یوسف ولد یوسف رحمت خان آپ کا نکاح ریان یزدانی ولد منان یزدانی سے باعوض حق مہر پانچ لاکھ روپے طے پایا ہے کیا آپ کو قبول ہے؟۔۔۔۔ مولوی صاحب نے نکاح کے کلمات پڑھے تو یوسف خان نے اپنے ہاتھ میں موجود زمدہ کے ہاتھ کو ہلکا سادباتے اسے سب سہی ہے کا اشارہ کیا۔
اسنے خاموش آنسوں بہاتی آنکھوں سے اپنے ابا کی جانب دیکھا جو ہر پریشانی سے آزاد مسکراتی نظروں سے اسکے چہرے کو دیکھتے دھیرے سے اثبات میں سر ہلا کے اسے ہاں کہنے کا اشارہ کر رہے تھے۔
قبول ہے۔۔۔۔ باپ پہ نظریں جمائے بھاری لہجے میں بولی۔
کیا آپ کو قبول ہے۔۔۔ مولوی صاحب نے ایک بار پھر وہ کلمات دھیرائے ۔
زمدہ نے نظر اٹھا کے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا جو چہرے پہ بلا کی سنجیدگی لیئے جیسے ضبط سے بیٹھا ہوا تھا۔
قبول ہے۔۔۔ ریان پہ نظریں ٹکائے کہا۔
کیا آپ کو قبول ہے۔۔۔ آخری بار پوچھنے پہ وہ واپس اپنے ابا کی جانب نظریں کر گئی۔
قبول ہے۔۔۔ گہری سانس بھرتے آخر کار اسنے سامنے بیٹھے شخص کو اپنا ہم سفر بنانے کی رضامندی دے دی۔
مولوی صاحب نے اسکی جانب نکاح نامہ بڑھایا جہاں پہ اسنے بجھے دل کے ساتھ دستخط کیئے۔
ہر لڑکی کی طرح اسنے کیا کیا خواب نہیں دیکھے تھے اپنی شادی کو لے کے۔
اسنے تو ہر چیز سوچ رکھی تھی کے کیسے تیار ہوگی ۔۔ ہیوی ہیوی جیولری پہنے گی ۔۔ سرخ لہنگا ہوگا۔۔۔
لیکن وہ پہلی دلہن تھی جو اپنی شادی پہ مکمل سیاہ لباس میں موجود تھی۔