Happy New Year By Nabila Abar Raja

 Age difference | Cousin Marriage | Forced Marriage | Rude Hero | Digest Base 

شادی کی پہلی رات ہی اس نے اپنی دلہن کا گلا دبایا وہ اس سے پندرہ سال چھوٹی تھی، اسکی لاڈلی کزن تھی، وہ اسے بچوں کی طرح ٹریٹ کرتا تھا گھر میں جب اس نے اپنی پسند کا اظہار کیا کے اپنی کلاس فیلو سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اس لڑکی نے خودکشی کر کے سب کی نظروں سے اسے گرادیا آج وہ اپنی محبت سے دور اس لڑکی کو دلہن بنا کر لایا تھا۔۔ وہ جو محبت تھی اب نفرت میں بدل چکی تھی اس نے سوچ لیا تھا اسے گھٹ گھٹ کر مارے گا۔۔۔۔۔۔۔

دھیرے سے دروازہ کھلا اتزل کے پسندیدہ پر فیوم کی
خوشبو پہلے اندر آئی وہ بعد میں اندر آیا۔ امید کی نگاہیں اپنے پاؤں کے ناخنوں پر مرکوز ہو گئیں وہ صوفے پر بیٹھ گیا پاؤں کو جوتے سے آزاد کیا گریبان کے اوپری دو بٹن کھولے آستینوں کے کف کہنیوں تک چڑھا لیے پاکٹ سے تمام چیزیں نکال کر صوفے پر اچھال دیں خاصی دیر وہ یونہی بیٹھا رہا امید کو گھبراہٹ ہونے لگی۔۔۔۔۔۔

پھر وہ بیڈ پر اس کے چہرے کو نگاہوں کی گرفت میں لیتے اس کے سامنے بیٹھ گیا اس کا چہرہ گھونگھٹ کی قید سے آزاد تھا دوپٹہ پیشانی سے خاصا اوپر پنیں لگا کر سیٹ کیا گیا تھا وہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا امید کی گھنی پلکیں بار بار رخساروں پر لرز رہی تھیں۔۔۔۔۔۔

” ہوں۔ ” کتنی دیر بعد اس کے لبوں سے یہ مبہم سا لفظ نکلا۔

“نکاح سے پہلے میں تمہیں ذہنی جسمانی اور جذباتی طور پر بچی ہی سمجھ رہا تھا سولہ ساڑھے سولہ سال کی لڑکی بچی ہی ہوتی ہے بشرطیکہ اسے زمانے کی آلودگیوں نے نہ چھوا ہو تمہارے بارے میں میرا پہلے یہی خیال تھا کہ تمہیں نئی دنیا کی ہوا نہیں لگی ہے مگر تم نے اپنی حرکتوں سے میرے خیال کو غلط ثابت کر دیا ہے۔۔۔۔۔
اس عروسی سوٹ میں تم بچی نہیں زمانہ ساز عورت لگ رہی ہو ابھی تمہاری عمر یہ سوٹ پہننے کے قابل نہیں تھی جذباتی طور پر تم شاید خود کو میرے برابر سمجھ رہی ہو تمہاری ڈائری میں یہی لکھا ہے ناں کہ محبت کے عمل کے دوران محبوب اور محب ایک ہی سطح پر آجاتے ہیں، عمر کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتا تمہارے اس نظریے کے مطابق میں تمہارے برابر ہوں مگر میرے نظریے کے مطابق تم تمام عمر بھی میری سطح کے برابر نہیں آسکتیں چاہے سات جنم بھی لے لو۔۔۔۔۔۔۔

” واقعی تم بہت بڑی ہوگی ہو بچی نہیں زہریلی ناگن ہو جس نے میرے خوابوں کو ڈس لیا ہے تم ایک حسینہ اور جلاپے کی آگ میں ماری عورت ہو تمہاری اس صورت تمہارے اس روپ سے جو تم نے مجھے زیر کرنے کے لیے اپنایا ہے اس سے مجھے گھن آرہی ہے۔۔۔۔۔ ” وہ قہروغضب میں بھرا زخمی درندہ لگ رہا تھا جو کسی بھی لمحے اسے چیر پھاڑ سکتا تھا وہ فق ہوتے چہرے کے ساتھ اس کے تذلیل بھرے فقرے سن رہی تھی۔۔۔۔

” میرا دل چاہ رہا ہے تمہاری گردن دبا دوں تمہارا خون پی جاؤں تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر کے چیل کوؤں کو کھلاوں۔” وہ سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ سچ مچ اس کے قریب ہوا اور اس کی صراحی دار زیورات سے بو جهل گردن دونوں ہاتھ سے دبوچ لی امید کی آنکھیں ابل آئیں اور سانس سینے میں گھٹ کر رہ گیا وہ مچلی کسمسائی گردن کا گلوبند جیسے اس کے حلق میں پیوست ہوا جا رہا تھا۔۔۔۔

” آئی ول کل یو۔” اتزل نے ہاتھوں کا دباؤ بڑھایا تو وہ ایک دم بے جان سے ہو گئی اترل نے بجلی کی تیزی سے اسے چھوڑ دیا وہ بالکل بے حس و حرکت تھی اس نے اس کے بالوں سے موتیے کے گجرے نوچ کر نکالے دوپٹہ اتار کر مسیری سے دور اچھال دیا گردن کا گلوبند نکالا تو سرخ سرخ سے نشان واضح ہو گئے اس نے بڑی بے رحمی سے اسے زیورات کی قید سے آزاد کیا اور بیڈ شیٹ الٹ پلٹ دی کمرا صبح تک کے مطلوبہ اسٹیج کے لیے تیار ہو چکا تھا وہ اپنا من پسند ایکٹ بھی سوچ چکا تھا بکھری بکھری بےترتیب مسمری دیکھ کر اس نے سکون کی سانس لی اور باہر آکر دوسرے بیڈ روم میں گھس گیا۔۔۔

Download Link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *