Your cart is currently empty!

Safak Muhabat by HS Novels Novel20449
Safak Muhabat by HS Novels
“حاذق پلیز… آپ دوسری شادی نہ کریں…مم… میں نہیں رہ سکتی آپ کے بغیر!” وہ روتے ہوئے اس کے گریبان سے لپٹ گئی۔ مگر وہ اس کے ہاتھ جھٹک کر پھنکارا، “تمہارے بھائی نے میری بہن کے سر پر سوتن لاد دی، اب میں وہی سب کرونگا جو تمہارے بھائی نے میری بہن کے ساتھ کیا۔ تب پتہ چلے گا اسے ، بہن میں جان بستی ہے نہ اسکی ، اب اسی طرح جان نکالوں گا اسکی بھی۔۔ وہ بھی تڑپے گا جیسے میں تڑپ رہا ہوں ۔!” وہ لمحہ بھر کو رکا، سرخ آنکھوں میں انتہا کی سفاکیت تھی ۔ “ویسے بھی ایک بانجھ عورت ہو تم ، مجھے وارث چاہیے تھا، مگر میں نے تمہاری اس خامی کو محبت میں نظرانداز کر دیا۔ تمہارے بھائی نے میری بہن کو دھوکہ دیا، پرائی عورتوں سے عشق لڑایا۔ اب نہیں… اب میں اپنی ماں کی اس خواہش کو ضرور پورا کروں گا ۔۔ دوسری شادی بھی کروں گا!”اور پھر جیسے ہی مولوی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا وہ صدمے سے بےحال ہو کر زمین پر ۔۔۔۔
اس کی آنکھ اچانک کھلی تھی مگر اس کا پہلو اب بھی خالی تھا۔ “کیا وہ ابھی تک نہیں آئے؟” وہ خود کلامی کرتی اٹھی۔ گھڑی رات کے دو بجا رہی تھی۔ وہ اکثر گھر لیٹ آتا تھا مگر اتنا لیٹ کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس نے ایک دفعہ پھر اس کا نمبر ٹرائی کیا جو بند ہی آ رہا تھا۔ “یا اللہ، سب خیر ہو۔” وہ دل میں اس کے لیے دعائیں کر رہی تھی۔ پھر اٹھ کر پاس جھولے میں سوئے اپنے دو سال کے بیٹے کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔ عیسیٰ کو اٹھا کر وہ بیڈ پر لے آئی تھی۔ صبح تقریباً سات بجے کا وقت تھا جب وہ گھر لوٹا۔ “ابراہیم، آپ کہاں تھے؟ پتہ ہے کتنی فکر مند رہی ہوں؟ آپ کا موبائل بھی بند تھا۔ سب ٹھیک تو تھا نا؟” وہ فکر مندی سے بولی۔ “ہاں، سب ٹھیک تھا۔ موبائل کی بیٹری ڈیڈ ہو گئی تھی، تو تمہیں بتانا بھول گیا۔ اچانک ایک کام آ گیا تھا تو مجھے آفس میں ہی رکنا پڑا۔” “ایسا کون سا کام تھا جو پوری رات چلتا رہا؟ پتہ ہے میں اور عیسیٰ اکیلے تھے۔ جلدی آیا کریں، مجھے ڈر لگتا ہے۔” “ہاں ٹھیک ہے، تم میرے کپڑے نکالو، میں نہا کر آتا ہوں۔” وہ نظریں چراتا ہوا واش روم چلا گیا۔ وہ جانتی تھی بحث بےکار تھی، اس لیے چپ چاپ کپڑے نکالنے لگی۔
——-
رات دیر تک جاگنے کی وجہ سے صبح اس کی آنکھ دیر سے کھلی تھی۔ مگر وہ جیسے ہی اٹھنے لگی، حاذق نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ “حاذق، کیا ہو گیا آپ کو؟ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے، مجھے جانے دیں باہر۔” “ابھی میری نیند پوری نہیں ہوئی، اس لیے مجھ سے دور ہونے کا سوچنا بھی مت۔ مجھے سونے دو۔” وہ کروٹ بدل کر اس کی گردن میں چہرہ چھپاتے ہوئے دوبارہ سو گیا۔ وہ سرخ چہرہ لیے اس سے دور ہونے کی کوشش کرنے لگی۔ “مجھے ناشتہ بنانا ہے پلیز۔” “بالکل نہیں۔ آج سنڈے ہے اور مجھے بھوک بھی نہیں۔ تم میرا دن خراب مت کرو، بس میرے پاس رہو۔” وہ اسے مزید خود میں سمیٹتا ہوا بولا۔ نوشین اس کے سامنے ہار مان گئی اور اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی۔ وہ پرسکون ہوتا سو گیا۔ وہ دوبارہ تقریباً بارہ بجے اٹھا تھا۔ فریش ہو کر دونوں ایک ساتھ کمرے سے باہر نکلےتھے۔ حاذق لاؤنج میں ٹی وی دیکھنے لگا اور نوشین نے ناشتہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ ناشتہ ٹیبل پر لگا کر اس نے حاذق کو آواز دی تھی۔ وہ دونوں ناشتہ کر رہے تھے جب نسرین بیگم کمرے سے باہر آئیں۔ “اٹھ گئی مہَرانی صاحبہ؟ یہ وقت ہے ناشتہ کرنے کا؟ ایک ہی دن ہوتا ہے میرے بیٹے کا گھر میں، اس دن بھی تم وقت پر اسے کھانا نہیں دیتی۔ نہ خود وقت پر اٹھتی ہو نہ اسے اٹھاتی ہو۔” نسرین بیگم کرسی گھسیٹ کر پاس ہی بیٹھ گئی تھیں اور شروع ہو گئیں۔ نوشین نے گھور کر اپنے شوہر نامدار کو دیکھا۔وہ ساس صاحبہ کو کیسے بتاتی کہ ان کا بیٹا ہی اسے اٹھنے نہیں دیتا۔ اس کا دل چاہا کہ کہہ دے، مگر پھر مروت میں خاموش ہو گئی۔ حاذق آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے سوری کہہ رہا تھا۔ “پتہ ہے حاذق بیٹا، آج مجھے مسز امین کا فون آیا تھا۔” وہ بیٹے سے مخاطب ہوئیں۔ “ان کے ہاں پوتے کی ولادت ہوئی ہے۔ ابھی سال پہلے ہی شادی ہوئی تھی اور اب دیکھو دادی بھی بن گئیں۔ اور ایک تم ہو، تین سال ہوگئے ہیں مگر میں ابھی تک خوشی دیکھنے کو ترس گئی ہوں۔” آخر میں نوشین کو دیکھتے ان کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔ “بس چھ مہینے اور دیکھوں گی، اس کے بعد تمہیں دوسری شادی کرنی ہوگی۔ کب تک تم بے اولاد رہو گے؟ مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے، تم کیا دو شادیاں نہیں کر سکتے؟” “ماما جان، کیا ہو گیا ہے آپ کو؟ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟” وہ کھانا چھوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ “میں کچھ نہیں جانتی، مجھے تمہارا وارث چاہیے۔” وہ غصے سے اٹھ کر چلی گئیں۔

Leave a Reply