Koi Charagar Ho by Deeba Tabassum

Haveli Base | Inspector Heroin | Rude Hero | Family base | Social Romantic Novel

منع کیا تھا نا یہاں آنے سے ؟؟؟ ” اسکی آواز دھیمی مگر غراہٹ بلند تھی — این الصبا کبھی اتنی خوفزدہ نہیں ہوئی تھی جتنی اس سے ہو رہی تھی — ملیحہ کی لاش کا منظر اسکی ٹانگوں میں کیچی پیدا کر گیا
“مم — ” این الصبا نے کچھ کہنا چاہا تھا — اسفند یار نے اسے پیچھے لگے درخت پر دھکا دیا ۔۔ – این الصبا کا سر بری طرح دیوار سے ٹکرایا — شال گر گئی ۔۔۔ لمبے سیاہ بال بکھر گئے ۔۔۔ اسکی پیچ کافی بلند تھی
” تمہیں میری بات سمجھ نہیں آئی تھی ؟ ؟ ؟ ” اس نے این الصبا کے چہرے کو اپنے مضبوط ہ ؟؟؟” ہاتھ میں جکڑ لیا این الصبا کو لگا اسکے جبڑے تک ٹوٹ گئے ہیں — زندگی میں پہلی بار کسی مرد کے سامنے اسکے آنسو نکلے تھے ۔۔۔ خوف ہی خوف تھا دہشت ایسی کہ لگتا تھا اگر زندہ بچ بھی گئی تو اس منظر کی خوفنا کی چھالے گی
کیوں آئی ہو یہاں ؟ ؟ ؟ ” اسفند یار دھاڑا ساتھ ہی اسے بازو سے دبوچ کر زمین پر دھکا دیا

ڈر کیوں رہی ہو ؟؟؟ کرائم سین انویسٹیگیٹر این الصبا نے لاء انفورسمنٹ کی ٹریننگ نہیں لی ؟؟؟ اتنا خوف ؟؟؟” این الصبا نے کہنی موڑ کر آنسو صاف کیے — وہ گھٹنے کے بل پر اسکے قریب بیٹھا تھا
میں نے آپ سے بہت شرافت سے بات کی مگر وہ کیا ہے نا تم شہری لڑکیاں اپنے آپ کو بڑی توپ چیز سمجھتی ہو۔۔۔ تم سے شرافت سے بات کیا کر لی تم نے تو اسفند یار کو ہلکا ہی لے لیا ” اس نے این الصبا کی ہرنی کی مانند دہشت سے پھٹی موٹی موٹی آنکھوں میں جھانکتے کہا ۔۔۔ یہی موقع تھا این الصبا نے اپنے جو گر ز میں مقید دایاں پیر زور سے اسفندیار کے پیٹ میں مارا وہ پیٹھ کے بل گرا تھا اسے این الصبا سے اس حملے کی توقع نہیں تھی تھی۔۔۔ ۔۔۔ این الصبا موقع ملتے ہی اٹھ کر بھاگ گئی مگر اسکی قسمت اتنی اچھی نہیں تھی ۔۔ تھوڑا سا بھی دور نہیں گئی تھی کہ اسفند یار نے آگے آکر اسکا راستہ کاٹ لیا
این الصبا الٹے قدم پیچھے ہٹنے لگی ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں نمی اب بھی تھی اور اسفند یار کے چہرے پر سختی قائم تھی — این الصبا جتنے قدم پیچھے اٹھا رہی تھی اسفند یار اتنے قدم ہی آگے
لے رہا تھا

بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔۔۔ مکمل سے یہاں بیٹھ کر میری بات سن لو ” اسفند یار نے درخت کے پاس پڑے پتھر کی طرف اشارہ کیا تو این الصبا نا چاہتے ہوئے بھی بیٹھ گئی کہ

ایک انسان ہونے کے باعث اسے موت سے خوف آرہا تھا — اسفند یار اسکے بیٹھتے ہی خود بھی اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا ۔۔۔ پسٹل اسکے ہاتھ میں تھا این الصبا کی نظر آجا کر اسکے لوڈر پسٹل پر رک جاتی — اسفند یا ر اب اپنی کنپٹی مسل رہا تھا — پھر لمبے لمبے سانس لینے لگا این الصبا اسکے بولنے کی منتظر تھی ۔۔۔ اس نے ایک ہاتھ پتھر پر رکھ کر اسکے فرار کا آدھا راستہ بند کر رکھا تھا
“listen I”
وہ ٹہرا — این الصبار اسکو کشمکش میں ڈوبا دیکھ رہی تھی –
I apologize for being rude”
” روڈ ؟ ؟ ؟ ” این الصبا نے تعجب سے اسے دیکھا اسکا دل چاہا کوئی وزنی پتھر اس پاگل آدمی کے سر پر دے مارے وہ اسکی جان لینے والا تھا اور اب ؟؟؟
” دیکھو بات اتنی سی ہے کہ میں چاہتا ہوں تم حویلی سے چلی جاؤ — تم کل واپس لاہور  جارہی ہو — جارہی ہونا ؟ ؟ ؟ ” حکم دینے کے بعد اس نے اپنی تسلی کیلیے سوال کیا — این الصبا اسے ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی

Download Link

Support Novelistan ❤️

Agar aap ko hamari free novels pasand aati hain aur aap hamari mehnat ki qadar karna chahte hain, to aap chhoti si support / donation kar sakte hain.

EasyPaisa / JazzCash

0309 1256788

Account name: Safia Bano

Bank Transfer (UBL)

United Bank Limited

Account no:
035101052131
ya
0112 0351 0105 2131

Name: Sadia Hassan

IBAN:
PK85 UNIL 0112 0351 0105 2131

Shukriya! Aapki support hamare liye bohot qeemti hai 💕

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *