Tum Jis Dard Ke Darmaan Ho by Rubab Naqvi Novel20479
Tum Jis Dard Ke Darmaan Ho by Rubab Naqvi
Social issue base | Complete novel | Romantic Novel
Novel code: Novel20479
“پری !!”رو رو کر تھکنے کے بعد وہ ابھی اکڑتی کمر کو آرام دینے کے لیئے لیٹنے کا سوچ رہی تھی جب وہ وہاں اچانک ہی آیا تھا ۔۔۔
دل اچھل کر حلق میں آ گیا تھا اس کا ۔۔۔۔
اس کی وحشت زدہ رو رو کر سرخ پڑتی شہد رنگ آنکھوں میں جھانکتا وہ وہ عجیب سا محسوس کرتا نظریں چرا گیا تھا ۔۔۔۔۔
“کھانا کھالے “
اس نے کھانے کی ٹرے پر سے نظریں یوں ہٹائی تھیں جیسے نظر پڑنے ہر گناہ ملا ہو ۔۔۔
“میں آج شام ہی تجھے تیرے گھر چھوڑ آئوں گا !”
کافی وقت گزرنے کے بعد بھی جب اس نے کھانے کی طرف نہیں دیکھا تو وہ کافی نرم لہجے میں گویا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔
ٹھٹھک کر اس نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔
“سچ کہ رہا ہوں یار “
اس کی نظروں کو پڑھتا وہ سینے پر ہاتھ رکھتا بولا تھا ۔۔۔
“لیکن اس سے پہلے تجھے مجھ سے نکاح کرنا ہوگا ۔۔۔۔۔ “
سرد مہری سے کہتا وہ اس کو روشن ہوتے چہرے کو پھر تاریک کر گیا تھا ۔۔۔۔۔
“جب تو نے میری اماں کو بے عزت کر کے گھر سے نکل جانے کو کہا تھا ۔۔۔۔ میرا بڑا خون کھولا تھا ۔۔۔۔۔ اسی وقت تیرا دماغ ٹھکانے لگا دیتا ۔۔۔۔ لیکن میری اماں !!
مجھے اس وقت وہ سمجھا بجھا کر لے گئی تھی ۔۔۔ یہ صرف وہ جانتی ہے یا میں ۔۔۔۔۔
اتنا خراب تھا میرا دماغ ۔۔۔۔۔۔ ارادہ تو یہ تھا کہ “تیرا کام تمام” کر کے کہیں پھینک دیتا تجھے ۔۔۔۔ ایسی حالت کرتا کہ تیرا باپ بھی نہ پہچان پاتا تجھے ! پر کیا تجھے پتہ ہے تو سوتے لوئے کتنی پیاری لگتی ہے ۔۔۔۔ ؟
بلکل چھوٹی سی گڈی ۔۔۔
سارا غصہ اڑا کے رکھ دیا تو نے ۔۔۔۔۔ اب بس یوں کر ۔۔ کہ مجھ سے نکاح کر لے ۔۔۔۔ ویسے بھی تجھ سے اب کون کرے گا شادی ؟
لوگوں کی باتوں کو افواہ سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔
مگر ایک “کڈناپ” ہوئی لڑکی کو کون شریف زادہ قبولے گا ؟”
اس نے بعد میں کیا کچھ کہا اس نے غور نہیں کیا تھا ۔۔۔ اس کا دماغ تو “تیرا کام تمام کر کے کہیں پھینک دیتا تجھے” پر اٹکا ہوا تھا ۔۔۔
واقعی ۔۔۔۔۔۔ وہ ایسا کر سکتا تھا ۔۔۔
وہ ایک شیطان صفت شخص کی قید میں تھی ۔۔۔۔ اور کب سے بس گھر والوں کا سوچے جا رہی تھی ۔۔۔ روئے جا رہی تھی ۔۔۔۔ روئے جا رہی تھی ۔۔۔
اسے چیخنا چاہیے تھا ۔۔۔ شور مچانا چاہیے تھا ۔۔۔ کوئی تو سنے گا ۔۔۔۔ کوئی تو آ کر جاننا چاہے گا ۔۔۔۔۔ یہ چیخ و پکار کیوں مچی ہے ؟
چیخ کر وہ اس کے کمرے کے دروازے کی طرف بھاگی تھی ۔۔۔۔ پیر کا درد بلکل بھولے ۔۔۔۔
وہ جو اور بھی جانے کیا کیا کہ رہا تھا ۔۔۔ جھٹکے سے اٹھ کر اس کا بازو پکڑ کے کمرے میں واپس گھسیٹتا لایا تھا جو ہذیانی کیفیت میں مدد کے لیئے چیخے جا رہی تھی ۔۔۔۔
اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر وہ اسے دیوار کے ساتھ لگا چکا تھا ۔۔۔۔
منہ پر ہاتھ کی گرفت مضبوط تھک لیکن سخت نہیں ۔۔۔
“تجھے چیخنے سے نہیں روکوں گا لیکن پہلے یہ جان لے کہ یہ علاقہ شہر بہت دور اور ویران ہے ۔۔۔۔
آس پاس جو لوگ ہوں گے وہ ہم سے زیادہ خطرناک ہوں گے ۔۔۔۔
اور یہ مت بھول تجھے تیری ہی بستی والوں کے سامنے اٹھا کر لایا ہوں میں ۔۔۔ کوئی کچھ نہیں کر سکا ۔۔۔۔۔ نہ کچھ کر سکے گا !”
ہاتھ ہٹا کر وہ زرا پیچھے ہوا ۔۔۔
بغور اسے دیکھا جو سکتے کی کیفیت میں کھڑی رہ گئی تھی ۔۔۔۔
“اب تیری رہائی تیری مرضی پر ہے میری پری !!! شام تک نکاح خواں آئے گا ۔۔۔ آرام سے نکاح کر لے ۔۔۔۔ نکاح کے فوراً بعد تجھے تیرے گھر لے جائوں گا یہ وعدہ ہے میرا تجھ سے۔۔۔۔۔ نہیں تو ۔۔۔ رہ جب تک چاہے یہاں !”
خاور جا چکا تھا ۔۔۔ لیکن وہ کتنی ہی دیر تک اس کی باتوں پر غور کرتی وہیں دیوار سے لگی کھڑی رہی ۔۔۔ پھر تیزی سے کمرے سے باہر نکلی ۔۔۔ چھت کی دیواریں اتنی اونچی نہیں تھیں ۔۔۔
ایڑھیاں اٹھا کر بمشکل ہی سہی وہ دوسری طرف دیکھنے میں کامیاب ہو گئی تھی ۔۔۔
لیکن پھر شدید مایوسی کی کیفیت میں اس نے اپنی ایڑھیاں نیچے گرائی تھی ۔۔۔۔
باہر دور تک کوئی آبادی نظر نہیں آ رہی تھی ۔۔۔
چند دھندلی دھندلی سی امارتیں نظر آئی تھیں مگر یہاں سے اس کی آواز وہاں پہنچنا نا ممکن تھا ۔۔۔۔۔
بجھی ہوئی آنکھوں میں یکدم کسی ارادے کی چمک پیدا ہوئی تھی ۔۔۔
دیوار پر چڑھنے کی کوشش کری ۔۔۔ لیکن یہ نا ممکن لگا ۔۔ دیواریں بہت اونچی تھیں ۔۔
ادھر ادھر نظریں دوڑائیں پھر کھڑکی سے پلنگ پر نظر پڑی ۔۔۔
کھانے کی ٹرے ۔۔ کمبل ۔۔ تکیہ ۔۔۔ پلنگ پہ بچھی چادریں تک زمین پر یوں رکھیں کہ زرا آواز نا ہو ۔۔۔۔ وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتی تھی ۔۔۔۔
بمشکل بھاری پنگ اٹھاتی وہ کمرے سے نکال کر ہانپنے لگی ۔۔۔
پھر پلنگ اٹھایا اور دیوار سے لگا کر بچھا دیا ۔۔
اس دوران پلنگ نے کتنی بری آوازیں کیں ۔۔ وہ الگ بات ہے ۔۔۔
اب دیوار پر تو وہ کسی نا کسی طرح بیٹھ گئی تھی لیکن دوسری طرف چھلانگ لگانا ایک مشکل ترین مرحلہ تھا ۔۔۔۔
وہ اس کی عزت کے در پر ہوتا تو وہ آرام سے خود کشی کو گلے لگا لیتی ۔۔۔
مگر ۔۔۔۔
ایک ٹانگ دوسری طرف لٹکاتی پھر خوف زدہ سی پیچھے کر لیتی ۔۔۔۔
ڈوبتے سورج پر نظر ڈالتی وہ ہار مان گئی تھی ۔۔۔۔۔
جونہی وہ پلنگ سے اتری تالیاں بجائے جانے کی آواز پر اچھل کر پلٹی تھی ۔۔۔
سیڑھیوں کے قریب کھڑا وہ جانے کب سے اس کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیتا ہنسی دبائے کھڑا تھا ۔۔۔۔۔
“واہ ! کیا بات ہے ! خاور اکبر کی بیوی کو یونہی با ہمت ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔”
پارسا کا ہارا ہارا انداز اس کی جیت کی خوشی کو اور ہوا دے رہا تھا ۔۔۔۔ مسکراہٹ سگریٹ نوشی سے سیاہ اور پان چبانے سے لال پڑتے ہونٹوں سے جدا نہیں ہو رہی تھی

Download Link
Support Novelistan ❤️
Agar aap ko hamari free novels pasand aati hain aur aap hamari mehnat ki qadar karna chahte hain, to aap chhoti si support / donation kar sakte hain.
EasyPaisa / JazzCash
0309 1256788
Account name: Safia Bano
Bank Transfer (UBL)
United Bank Limited
Account no:
035101052131
ya
0112 0351 0105 2131
Name: Sadia Hassan
IBAN:
PK85 UNIL 0112 0351 0105 2131
Shukriya! Aapki support hamare liye bohot qeemti hai 💕