- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Novel: Bin Bass
Writer: Sundus Sheikh
Genre: Haveli Based, Jageerdar Based, Class Difference Based, Age Difference Based
وہ تھکن سے چور تھا کپڑے بدلنے کا دل نہیں چاہا مگر زبردستی خود کو باتھ روم میں دھکیلا اور فریش ہوکر بستر پر گر گیا
ساتھ والے کمرے سے زنجیریں گھسیٹنے کی آواز آرہی تھی ۔ اس نے نظر انداز کرنے کے لئے تکیہ کانوں پر رکھا
تھوڑی دیر بعد زنجیروں کی آوازیں تیز ہوتے ہوتے دیواروں سے ٹکرانے لگیں ۔
وہ تھکن بھول کر کمرے کی طرف بھاگا ۔
اندر وہ بیڑیوں میں جکڑی وہ مخلوق ،جسے دیکھ کر پہلی نظر میں یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ وہ انسان ہے یا جانور .؟
دروازہ کھلتے ہی وہ دروازے کی طرف جھپٹا۔
میں ہوں ، میں!! شانت ہوجائیں میں ہوں ادھر دیکھیں ۔ وہ میل اور دھول سے بھرے اس سیاہی مائل مخلوق کو پچکار رہا تھا
ہاتھ تھام کر زمین پر بٹھایا ، اور اپنا دوسرا اس کے لمبے پراگندہ بالوں میں پھیرا
وہ شاید نیند سے کوئی خواب دیکھ کر جاگا تھا اس لئے مشتعل ہوگیا ۔ اس کی تھپکیوں اور سہلانے سے تھوڑی دیر میں وہ گہری نیند میں جا چکا تھا ۔
********
میرے پاس تمہیں دینے کے لئے ایک خاص تحفہ ہے۔ اس نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا
کیا بھائی،،؟ کیسا تحفہ ہے۔۔ وہ خوشی سے نہال ہوگیا
وہ اٹھا اور اپنے مختصر سے سامان سے کپڑوں میں لپٹی ایک چیز اٹھا لایا۔
یہ کیا ہے بھائی.؟ اس نے بیتابی سے پوچھا
کامی! نے کپڑا ہٹا کر سفید کور والی ایک ڈائری نکالی۔ وہ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا
یہ لو۔’ اور یہیں میرے سامنے بیٹھ کر پڑھو۔ میں نے اس دن کا بہت سالوں سے انتظار کیا تھا، میرے لئے تم ہی میرا آخری سہارا ہو۔۔ اس نے ڈائری اسکی طرف بڑھاتے ہوئے بھرّائی ہوئی آواز میں کہا
واصل نے جھجھکتے ہوئے ڈائری تھام لی اور ایک ٹرانس کی کیفیت میں کھڑکی کے پاس بیٹھ گیا۔
ڈائری کھولتے ہوئے اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ خطرناک ڈاکوؤں کی جائے پناہ ایک غار کا بھاری پتھر ہٹا رہا ہو جس کے بعد یا تو اسے سب کچھ مل جائے گا یا وہ سب کچھ کھو دے گا۔
کھولو اور پڑھو۔ کامی! نرمی سے بولا
اس نے پہلا صفحہ کھولا۔
” خود غرضی ” پہلے صفحے پر صرف ایک لفظ لکھا تھا۔
اس نے الجھ کر اگلا صفحہ پلٹا اس پر سات آٹھ سطور میں کچھ لکھا ہوا تھا۔
اس نے وہیں سے پڑھنا شروع کیا۔
پہلے ہی صفحے کو پڑھ کر اس پر حیرت کے دورے پڑنے لگے تھے۔۔
یہ ، یہ سب کیا ہے بھائی ۔؟ اس نے سراسیمگی سے اسکی طرف دیکھا
کامی! کے بے ترتیب داڑھی اور مونچھوں والے منہ پر گذرے سال کا کرب واضح تھا…
********
واصل کو بریانی بہت پسند تھی، انہوں نے وہی بنانا شروع کردیا۔۔
دو ڈھائی گھنٹے گذر گئے ہیں واصل! کب سے کمرے میں کیا کر رہا ہے امّی۔؟ صبغہ! نے سلاد کاٹتے ہوئے فکر مندی سے پوچھا
میں جب گئی تھی تو کامی! کے پاس بیٹھا کچھ پڑھ رہا تھا۔ انہوں نے بریانی دم پر لگا کر اطمینان سے جواب دیا
وہ دیکھو آ بھی گیا۔ ان کی اچانک نظر کچن کی طرف آتے ہوئے واصل! پر پڑی
مہک پہونچ گئی ہو گی تم تک تبھی آگئے ہو۔ صبغہ! نے اسے چھیڑا
کیا ہوا بیٹا۔۔؟ سلمیٰ نے اسے بت کی طرح ایستادہ دیکھ کر پوچھا
آپ کو ان سب سے آسائشات سے اپنے بیٹے کے لہو ٹپکتا ہوا نہیں محسوس ہوتا۔۔ وہ ان کی طرف دیکھتا ہوا برفیلے لہجے میں پوچھ رہا تھا
سلمیٰ! کے قدموں تلے زمین نکل گئی۔
صبغہ! کے ہاتھوں میں چھری کپکپا کر رہ گئی۔
وہ دونوں وحشت زدہ سی ایک دوسرے کو تک رہی تھیں۔
بات سنیں دیکھیں میری طرف، دوسرے لوگوں سے تو بعد میں حساب کتاب لیا جائے گا پہلے آپ یہ بتائیں، آپ تو ماں ہیں نا آپ کا دل نہیں کانپا؟ اس نے ایک جھٹکے سے انہیں پکڑ کر ان کا رخ اپنی طرف کیا.
یہ فریج، اے سی، روم ہیٹر، یہ خوبصورت گھر یہ ساری آسائشات سے فائدہ اٹھاتے وقت آپ کو ایک بار بھی، اندھیرے کمرے میں لیٹا اپنا بیٹا یاد نہیں آیا۔۔؟ اس کی آنکھوں سے لہو ٹپک رہا تھا
سلمیٰ! کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپک رہے تھے۔
مجھے چبھ رہی ہے اس گھر کی ایک ایک چیز، مجھے اب سمجھ میں آرہا ہے کہ کیوں میرا بھائی، کبھی اپنے کمرے کا پنکھا نہیں چلاتا تھا، سردی ہو یا گرمی وہ ہمیشہ زمین پر ہی سوتا تھا، افف-‘ میں کیا کروں مجھے لگتا تھا میرے بھائی کا دماغی توازن ٹھیک نہیں اس لئے وہ ایسا کرتا ہے مگر اب مجھے پتہ چلا میرا بھائی آپکی طرح بے ضمیر نہیں تھا کہ اسکی عزت نفس کو نیلام کرکے ملی گئی آسائشات کا خوشی خوشی فائدہ اٹھائے۔۔ وہ بے قابو ہوکر چیخ رہا تھا۔
وہ دونوں ماں اور بیٹی سہمی سہمی سی دیوار سے چپکی اس کا یہ جنونی روپ دیکھ رہی تھیں۔
وہ چیختا چلاتا اپنے کمرے میں جاکر دروازے بند کرکے بیٹھ گیا۔۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ پوری دنیا تہس نہس کردے۔
سلمیٰ! نے بےبسی سے اسکے بند دروازے کو دیکھا، کیا اب وہ اپنے دوسرے بیٹے کو بھی کھو دیں گی کیا یہ بھی کمرے کی تاریکی کی نذر ہو جائے گا۔ ایک خوف کنڈلی مار کر ان کے اندر بیٹھ گیا…..
****
Click here to download novel