Naveed E Wasal By Fatima Ahmad

Download Link

“اتنا مارو اس (گالی) کو کہ یہ کبھی دوبارہ اس گھر میں گھسنے کی جرت کرنا

تو دور اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نا دیکھ پائے۔ “نفرت سے بھرپور آنکھیں اپنے

سامنے کراہتے ہوئے لڑکے پر نظریں جمائے وہ شخص غصہ سے غرایا تھا۔

“چچ۔۔چاچو پلیز خدارا ۔۔۔ ایسا مت کریں۔ بس مجھے ایک بار اس سے مل لینے دیں۔

وہ میری بیوی ہے چاچو ۔۔ آپ مجھے اس سے ایسے ۔۔۔ دور نہیں کر سکتے ۔۔ پلیز چاچو ۔۔۔

اسے اس وقت سب سے زیادہ میری ضرورت ہے۔ آپ تو جانتے ہیں ہم ایک دوسرے

سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ اس لیے میری ایک غلطی کی اتنی بڑی سزا مت دیں۔

” سوجھے ہوئے چہرے اور زخموں سے چور جسم کی پرواہ کیے بغیر اس لڑکا نے

جلدی سے ان گنڈوں کے چنگل سے نکل کر اس شخص کے پاؤں کو جکڑا تھا۔

اس لڑکے کی حالت قابل رحم تھی۔آنکھیں بس خون ٹپکانے کو تیار تھی۔ روح پر لگے

زخموں کے نشان اس کے جسم سے رستے خون سے نظر آ رہے تھے۔

وہ تڑپ رہا تھا، مر رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے

جسم سے اس کی روح نکل رہی ہو اور سب بے بس تماشہ دیکھ رہے ہو۔

“پچھے کرو اپنے یہ گندے ہاتھ مجھ سے دو ٹکے کے لڑکے۔۔۔ اور یہ بار بار مجھے

چاچو مت کہو ” یہ کہتے ہی اس شخص نے لڑکے کے ہاتھوں کو جھٹکتے اسے پیچھے زمین پر دھکیلا تھا۔

“کیونکہ تمہارا چاچو تو اسی دن مر گیا تھا.جس دن تم نے میری بیٹی کے بھروسہ کو توڑا تھا۔

جانتے ہو وہ تمہاری وجہ سے موت سے بدتر زندگی گزار رہی ہے۔ اس کے لیے

میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں۔ اور ہاں اچھا کیا کہ تم نے یاد کروا دیا کہ وہ تمہاری

منکوحہ تھی۔ پر ٹینشن نہیں کرو اب نہیں رہے گی ”  نفرت ،غصہ اور شدت غم

سے چور لہجے میں کہتے وہ شخص تیزی سے اپنے بنگلوں میں گیا تھا اور کچھ

ہی دیر ایک سفید رنگ کا کاغز لیے باہر آیا تھا۔

“یہ لو طلاق نامہ آج سے میری بیٹی سے تمہارا رہا سہا رشتہ بھی ختم ہو گیا ہے۔

آج کے بعد کبھی اس طرف کا رخ مت کرنا کیونکہ اب سے تمہارا ہمارا کوئی رشتہ نہیں”

ان کاغذوں کو اس لڑکے کے چہرے پر اچھالتے وہ شخص اپنے آدمیوں

سے اسے گھسیٹ کر باہر پھیکنے کا کہہ کر جا چکا تھا۔

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *