- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Woh ek shakhs By Maryam Aziz
Army based | Friendship based | Romantic novel | Rude hero based | Village based
“میں بہت عام سی لڑکی ہوں جو آپ جیسے شخص کے بالکل قابل نہیں۔ آپ کے لیے آپی جیسی لڑکی ہونی چاہیے ہر لحاظ سے پرفیکٹ۔ آپ آپی سے شادی کرکے خوش رہیں گے۔” یہ سب بولنے کے لئے جتنی ہمت اس کو درکار تھی یہ صرف وہی جانتی تھی لیکن مقابل کھڑا شخص کوئی ردعمل ہی نہیں دے رہا تھا۔ اسے برا بھلا کہے کہہ دے کہ وہ سچ میں اس کے لائق نہیں کہ اس سے شادی کی جائے۔
“اپنے گھر والوں میں تم بھی شامل ہو۔”فاطر کی طرف سے سوال آیا تھا۔وہ خاموش رہی تھی۔
“کچھ پوچھا ہے میں نے۔”اب کی بار وہ اتنی ذور سے بولا کہ وہ اپنی جگہ سے ہل سی گئی۔اس کی ساری ہمت ڈگمگا گئی تھی۔اس کا سر اثبات میں ہلا تھا۔
ی”یہ وہی ہے نا جو تم سے اظہار محبت کررہا تھا۔”وہ دو قدم کا فاصلہ طے کرتے بلکل اس کے مقابل آکر کھڑا ہوگیا۔ذہرہ بےساختہ پیچھے ہٹی تھی۔
“آپ پلیز آپی سے شادی کرلیں۔”ذہرہ بھیگی آواز میں بولی۔
“اپنا مشورہ اپنے پاس رکھو۔تم کون ہوتی ہو یہ فیصلہ کرنے والی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔”
وہ کہ کر تیزی سے باہر کی جانب بڑھا۔
“بات سنیں فاطر بھائی پلیز آپی سے۔”وہ جو اس کے پیچھے بھاگی تھی اس کے ایکدم رکنے پہ بری طرح اس سے ٹکرائی تھی کہ درد کی شدت سے وہ بےساختہ اپنا ماتھا سہلانے لگی تھی۔
“آج تو تم نے مجھ سے یہ بات کرلی آج کے بعد میں تمہارے منہ سے اپنا نام تک نہیں سننا چاہتا اور آج کے بعد میرے سامنے مت آنا ورنہ بہت برا ہوگا۔”وہ چلا گیا تھا اور خود پہ اس کا ضبط ختم ہوگیا تھا۔اس نے روتے ہوئے مڑ کر دیکھا۔لاؤنج کے دروازے میں عفراء کھڑی تھی۔اس کی دوست اس کی ہم راز وہ تو اس کی تکلیف سمجھے گی نا یہی تصور کرکے وہ اس کی طرف بڑھی لیکن تین قدم کے فاصلے پہ جیسے اس کے پیروں کو کسی نے زمین پہ جکڑ لیا۔عفرا اندر چلی گئی تھی اور اپنے پہچھے اس نے ذور سے دروازہ بند کیا تھا اور وہ بند دروازہ اسے کسی تھپڑ کی طرح اپنے وجود پہ لگتا ہوا محسوس ہوا تھا۔