Main Teri Adat Ka Mara By Dia Zahra

Gangster based| forced marriage | romantic |  Rude Hero |  Innocent Heroin |  Love Story.

“تم وہاں نہیں جاؤ گی “۔۔۔
آملیٹ کا پیس منہ میں رکھتے وہ سنجیدہ سرد آواز میں بولا سب لوگ خاموشی سے بریک فاسٹ کر رہے تھے جبکہ اُس کی سرد آواز پر چہچہاتی آرزو لب بھینچ گئی ۔۔
“کیوں نہیں جاؤں گی میں ضرور جاؤں گی میری فرینڈ کا برتھڈے ہے اُس نے اتنی محبت سے مجھے بلایا ہے”۔۔۔
آرزو فورک پٹختے غصے سے بولی اُسے سامنے بیٹھا شخص زہر لگ رہا تھا اِس وقت یا شاید زہر سے بھی بُرا ۔۔۔
“میں نے ایک مرتبہ کہا نا تم وہاں نہیں جا سکتی تو نہیں جا سکتی زیادہ زبان مت چلاؤ”۔۔۔۔
وہ سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھتے لفظوں پر دباؤ دیتے وہی ازلی گہری سنجیدگی سے بولا ۔۔۔
“میں جاؤں گی سنا تم نے کیا ہر وقت رعب جھاڑتے رہتے ہو مجھ پر کزن ہو زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے”۔۔۔۔۔۔
چئیر کھسکاتے وہ اٹھتے ہوئے ذرا اونچی آواز میں اُس کی لہو رنگ ہوتی آنکھوں میں اپنی ہیزل آنکھیں گاڑھے بولی جس پر مقابل نے جبڑے بھینچ لیے ۔۔۔۔۔۔
“بکواس بند کرو اپنی تمیز سے بات کرو “۔۔۔۔
ماتھے پر تیوری چڑھائے وہ اُس پانچ فٹ چار انچ کی آفت کی پڑیا کو آنکھیں دیکھائے دھاڑا کہ آرزو کا دل ہولے سے لرزا ۔۔۔
“کیوں تمیز سے بات کروں تم نے کی ہے کبھی تمیز سے بات ہمیشہ یہ مت کرو وہ مت پہنو یہاں مت جاؤ لیکن اب بس بہت ہو گیا میں جاؤں گی تمھارا یہ رعب باقی سب پر چلتا ہو گا مجھ پر نہیں چلے گا “۔۔۔۔۔
وہ اُسے انگلی دیکھاتے بولی آغا جی نے غصے سے اُس کی چلتی زبان ملاحظہ کی جبکہ مقابل کے تن بدن میں آگ بھڑکی تھی وہ تن فن کرتا اِس تک جاتا اِس کی کلائی غصے میں دبوچ گیا ۔۔۔۔
“ابھی پتا چل جائے گا تم وہاں کیسے جاتی ہو “۔۔
اسے گھسیٹتے وہ سرد چہرہ لیے آگے کو بڑھا جبکہ آرزو نے غصے سے اس سے اپنی کلائی چھڑوانی چاہی تھی ۔۔۔
“چھوڑو مجھے جنگلی کہی کے “۔۔۔۔
غصے سے دانت پیستے وہ بولے گئی اُس کی گوہر افشانیاں سنتے “دانیال سفیر خان ” کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچا تھا ۔۔۔۔
اُس نے سختی سے آرزو کو اُس کے کمرے میں پٹخا اور دروازہ باہر سے بند کر دیا ۔۔۔
“خبردار اگر کسی نے اس بد دماغ لڑکی کو یہاں سے نکالنے کی گستاخی کی “۔۔۔
انگلی دیکھاتے اُس نے ینگ جنریشن کی طرف شرر باز نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔
“تم ہو گے بد دماغ بلکہ تمھارے پاس تو دماغ ہی نہیں ہے بس ہر ایک پر حکم چلانا آتا ہے تمھیں جاہل شخص”۔۔۔
اندر سے آرزو اُس کی آواز سنتے چینخی تھی جبکہ باہر سب ینگ جنریشن کے چہروں پر دبی دبی ہنسی تھی جیسے اگر آرزو دیکھ لیتی تو اُن سب کے مسکراتے چہروں کو آگ ہی لگا دیتی ۔۔۔۔
رات کے سات بجے وہ مکمل تیار تھی اُس نے آئینے میں اپنا عکس دیکھا نیوی بلیو کلر کی میکسی میں ہلکے پھلکے میک اپ کے ساتھ وہ آسمان سے اتری کوئی پری ہی لگ رہی تھی آنکھوں پر گلاسز کے بجائے لینز لگا لیے تھے اُس نے ایک مرتبہ پھر گھوم کر اپنا جائزہ لیا ۔۔۔۔
“ہنہہہ جاہل نا ہو تو “۔۔۔
خان کو سوچتے آرزو نے کڑوا سا منہ بنایا اور اپنے کمرے کی کھڑکی کی جانب گئی جو لان میں کھلتی تھی ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کھڑکی کھولتے وہ وہاں سے باہر نکلی تھی ۔۔۔۔
“آرزو”۔۔۔۔
عائشہ لان میں آتے اُسے دیکھتے بھاگ کر اُس کے پاس جاتی دبی دبی آواز میں اندر کی جانب دیکھتے بولی ۔۔۔۔
“عائشہ میں جلدی واپس آ جاؤں گی تم سب سمبھال لینا اوکے بائے “۔۔۔۔
عائشہ کی بغیر کوئی سنے وہ باہر کی جانب چلی گئی جبکہ عائشہ پیچھے ماتھا پیٹتی ڈرتے ہوئے اندر کی جانب گئی تھی ۔۔۔
رات کے دس بجے وہ دبے قدموں سے اپنی ہائی ہیل ہاتھوں میں پکڑے ایک ہاتھ سے میکسی اٹھائے اندر داخل ہوئی تھی آہستہ سے لب دبائے وہ ہال میں داخل ہوئی جہاں داخل ہوتے ہی اُس کی سانس حلق میں اٹک گئی وہ آنکھیں پھاڑے سامنے ون سیٹر صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے براجمان شخص کو دیکھ آنکھیں پھیلائے وہی رک گئی بیک بون میں سرسراہٹ سی ہوئی تھی ۔۔۔۔
آرزو خان کو لگا جیسے سامنے بڑی شان سے موت کا فرشتہ بیٹھا ہے جو لہو رنگ آنکھوں سے اُسے ہی گھور رہا تھا گلے میں گلٹی سی ابھری جب وہ صوفے سے اٹھتا بھاری قدم اٹھانے لگا تھا کہ خاموش ہال میں اُس کے قدموں کی ہولناک آواز گونجنے لگی وہاں اُن دونوں کے سوا کوئی نہیں تھا شاید باقی سب کو اُس سامنے کھڑے جلاد نے ہی اندر بھیج دیا تھا وہ تھوک نگلتی خوف سے آنکھیں میچ گئی جیسے جیسے وہ اُس کے قریب آ رہا تھا آرزو کا دل جیسے بند ہو رہا تھا
۔۔۔۔۔

Download Link

Direct Download

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *