- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Ni Me Kamali Han By Nabila Aziz
Genre : 2nd marriage based | cousin marriage based | Rude hero based | Village based
Download Link
“میں اماں سے کچھ سن کر آرہا ہوں۔کیا یہ سچ ہے۔؟”وہ قریب آکر پارو کا گداز بازو دبوچ چکا تھا
وہ اس کی اتنی سختی گرفت اور جارحانہ تیوروں سے الجھ گئی۔
“لیا سن کر آرہے ہیں۔؟”
“کہ تم پریگنینٹ ہو۔:وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا جواباً ایک سیکنڈ میں
پارو کی پلکیں جھک گئی کیونکہ یہی سچ تھا اور یہ سچ ازمیر کیلیے ناقابل برداشت تھا۔
“میں کیا پوچھ رہا ہوں؟”اس نے پارو کو یکدم جھنجھوڑ کر کہا اور وہ اس کے اس قدر وحشی پن پہ تڑپ اٹھی تھی۔
“کیا پوچھ رہے ہیں؟”
“جو کچھ تم سن چکی ہو۔”
“اور جو کچھ آپ بھی سن چکے ہیں وہ بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے۔”
“یعنی اماں کی بات سچ ہے۔”وہ سختی سے بولا۔
“اماں جھوٹ کیوں بولیں گی؟”
“مگر مجھے یہ سچ گوارا نہیں۔”اژمیر کا سخت لہجہ کافی پتھریلا لگ رہا تھا۔
“کیوں؟”بےساختہ پارو نے کیوں کا لفظ اٹھادیا۔
“کیونکہ مجھے بچوں سے نفرت ہوچکی ہے۔میں بچوں کا وجود تو کیا ان کا
نام بھی برداشت نہیں کرسکتا کیونکہ بچوں کی وجہ سے رینا مجھ سے چھن گئی
ان ہی بچوں کی خواہش نے میری ہم سفر میری ساتھی کو مجھ سے دور کردیا۔یہ
بچہ ہی اس کی جان لے گیا موت کے منہ میں دکھیل دیا؟تمہیں چھٹکارا پانا ہوگا
اس چکر سے۔”ملک آژمیر میر حیات نے پارو کے سر پہ بم پھوڑ ڈالے تھے وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی رہ گئی تھی۔
“وہ مرگئی ہے تو اس کیلیے آپ خود کیوں نہیں مرجاتے کسی اور کا قتل کیوں کروارہے ہیں؟”
“میں کوئی بکواس نہیں سن سکتا۔تمہیں ہرقیمت پہ میری بات ماننی ہوگی اس لیے
صبح تمہیں میرے ساتھ شہر جانا ہوگا۔”اس نے سگریٹ سلگاتے ہوئے ڈبیا اور لائٹر سائید ٹیبل پہ پٹخ دئیے۔