- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Novlet name _ Terhween by Shireen Haidar
Writer _ Shireen Haidar
Pages _24
Genre: Age difference based heart touching c family story hai with mature writing must read
Click the link below to download the novel
Terhween by Shireen Haidar
اس کی ماں نگین ، جس بیچاری نے ابھی زندگی کی بتیسں بہاریں ہی دیکھی تھیں،
اوپر تلے بچے جن کر اس کے پلے رہ ہی کیا گیا تھا جو وہ ساتویں بیٹی کو
جنم دے کر بھی کسی کو منہ دکھانے جوگی رہتی ،
اسے تو یوں بھی اس جرم میں گھر بدر کر کے تیسری کو لیے آیا جاتا۔
وہ جو اس روز نہیں مرتی تو بھی ہر روز مرا کرتی ،
سات بیٹیاں اور ماتھے پر طلاق کا ٹھپا لے کر اسے جو جینا تھا،
اس کا حل ایک بار مر جانا ہی ہوتا ہے۔ کوئی ایسا طبی ٹیسٹ نہ تھا جو کوئی اس کے باپ شاہد میاں کو بتا سکتا
کہ وہ کس عورت سے بیٹے پیدا کروا سکتا ہے۔
سو وہ صبر کر کے بیٹھ گیا کہ اس کے سوا چارہ نہ تھا۔
یوں بھی اب کون سا اس کی اماں اس قابل رہ گئی تھیں جو اپنے بیٹے کے سر پر تیسری بار سہر اسجانے کے لیے کمر باندھ کر نکلتیں۔ ا
س بچی کی ماں کے مرنے بلکہ اس کے مرنے کا کھانا کھانے میں
ہر کوئی اتنا مصروف تھا کہ کسی کو علم ہی نہ تھا کہ صرف ماں مری تھی،
جسے اس نے موت سے جنگ کر جنم دیا تھا وہ تو زندہ تھی ،
اس کا کوئی والی وارث نہ تھا۔ بھوک سے بلک بلک کر جب اس نے پورا آنگن سر پر اٹھا لیا
تو سب کو یاد آیا کہ وہ اسی دن پیدا ہونے والی بچی تھی، اس گھر کی تیرھویں اولاد…
تیر ھویں بیٹی۔ ارے کون ہے یہ جو گلا پھاڑ پھاڑ کر رو رہی ہے ؟
اس کی بستر پر پڑی، بوٹیاں کھولتی دادی نے بلند آواز سے کہا
تو جواب میں کسی نے کہا کہ تیرھویں رو رہی ہے، اس کے بعد” تیرھویں“ ہی اس کا تعارف بن گیا۔
وہ گھر کے کسی نہ کسی کونے میں پڑی رہتی،
اس کے رونے کی آواز آتی جب وہ اپنا لنگوٹ گیلا کرتی یا بھوکی ہوتی۔
کسی نے اس کے کان میں اذان دی تھی یا گھٹی کسی نے اس کے بال اتروائے یا نہیں،
اس سے کسی کو غرض نہ تھی۔ کبھی بڑی بہنوں میں سے کوئی اٹھا لیتا یا ہمت کر کے
اس کی سوتیلی ماں ہی لوگوں کو دکھانے کی خاطر اسے گود میں لے لیتی ،
اس کی ماں کی موت کے ساتھ ہی سوتیلا پن ختم ہو گیا تھا ،
اب کسی سے حسد کرنا۔ اس منھی سی جان پر اسے ترس بھی بہت آتا تھا۔۔۔۔