Mera Ashiyana by Umme Hania

Age difference | After Marriage | Cousin marriage | Rude hero | Romantic novel
گندمی رنگت۔۔۔ ماتھے پر بکھرے نم بال۔۔۔ مضبوط ڈیل ڈول ۔۔۔ ماتھے پر موجود ہلکی شکنیں اور آنکھوں میں موجود ایک سرد تاثر۔۔۔
عروب نے بے ساختہ تھوک نگلا۔۔۔ ناجانے یہ شخص ہمہ وقت انگارے کیوں چبائے رکھتا تھا۔۔۔ یہ اسکا نارمل انداز تھا۔۔۔ غصے میں ہوتا تو نا جانے کیا کرتا۔۔۔ لیکن کم از کم دوسرے دن کی دلہن سے لہجہ تو نرم رکھا جا سکتا تھا نا۔۔۔۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو بھئ۔۔۔ بچے ہیں میرے ۔۔۔ اور ابھی تک بھوکے ہونگے۔۔۔ میں تو تمہارے بھروسے بیٹھا رہ گیا کے تم انہیں ابھی تک ناشتہ کروا چکی ہو گئ۔۔۔ اسکے ماتھے کی شکنیں کچھ مزید بڑھیں۔۔۔
عروب کے لئے حیرت زد حیرت تھی وہ ہونق بنی دیکھتی رہی۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔ تمہارے باپ نے نہیں بتایا تھا اس بارے میں۔۔۔ وہ اس کی حالت دیکھ آئینے کی جانب پلٹتا بال بنانے لگا۔۔۔
دیکھو لڑکی اگر تمہاری شادی تم سے دوگنی عمر کے مرد سے ہوئی ہے تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔۔۔ یہ تمہارے باپ کی خواہش تھی۔۔۔ میں قطعاً اس شادی کے حق میں میں نا تھا۔۔۔
اسنے بال بنا کر ہیئر برش ڈریسنگ پر رکھا اور کف لنکس بند کرتے آئینے سے اسکا عکس دیکھا۔۔
لیکن اب چونکہ تم اس گھر میں میری بیوی کی حیثیت سے موجود ہو تو بہتر ہے کے روز اول سے ہی اپنی ذمہ داریاں اٹھانے لگو۔۔۔
یہ گھر اور میرے بچے اب تمہاری ذمہ داری ہے۔۔۔ اور بچوں کے بارے میں میں کسی قام کی کوتاہی برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔ میرے بچے وہ طوطے ہیں جن میں سلطان کی جان بستی ہے تو بچوں کےمعاملے میں اختیاط سے کام لینا۔۔۔ وہ خود پر پرفیوم کا چھڑکاو کرتا آئینے سے نظر آتے اسکے ساکت وجود کو دیکھتا سرد لہجے میں گویا ہوا۔۔۔
عورت کے فضول قسم کے نخرے دیکھنے ۔۔۔۔چونچلے اٹھانے اور بالخصوص عورت کو ڈھیل دینے کے حق میں میں بالکل نہیں ہوں۔۔۔۔
ایک منٹ میں باہر آو اور آ کر ناشتہ بناو۔۔۔
اس رشتے کی حقیقت سے تم باخوبی آگاہ ہو۔۔۔ تمہارا باپ مجھے مجبور نا کرتا تو تم آج کسی صورت یہاں میری بیوی کی حیثیت سے موجود نا ہوتی۔۔۔
وہ شخص قطرہ قطرہ اسکی رگوں میں زہر انڈیل کر پرفیوم کی شیشی واپس ڈریسنگ پر رکھتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا۔۔۔
جبکہ عروب کی حالت یوں تھی کے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔
وہ شخص بے حد سفاک بھی تھا یہ عروب نے اب جانا تھا۔۔۔
کم صورت سے کم صورت لڑکی بھی اس روز تو شوہر کی توجہ حاصل کر ہی لیتی ہے۔۔۔ وہ تو پھر ہزاروں میں ایک تھی۔۔۔
وہ باپ کی لاڈلی قسمت کی اس ستم ظریفی پر بونچکا رہ گئ تھی۔۔۔
اسکے باپ نے کیا سوچ کر اسکے لئے یہ فیصلہ لیا بھلا۔۔۔
کہاں وہ سفاک اور بے مہر شخص کہاں وہ نازک کلی۔۔۔ کہاں کب تک اور کیسے وہ بھلا اس شخص کی ہمراہی میں چل سکتی تھی اس پر تو ابھی سے تھکن سوار ہونے لگی تھی۔۔۔
اسنے بے طرح نم آنکھوں کو مسلا اور آہستگی سے بیڈ سے اتر آئی۔۔۔
اسنے ایک اداس نگاہ ارد گرد کمرے میں ڈالی۔۔۔ اونچے محلوں میں رہنے والے رئیس زادوں کے دلوں میں دل نہیں ہوتا پتھر ہوتا ہے اسنے اب جانا تھا۔۔۔ اونچے محلوں کی اصلیت بہت سفاک تھی۔۔۔ وہ من من بھاری ہوتے قدم اٹھاتی کمرے سے نکلی۔۔

Download Link

Direct Download

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *