- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Naqsh E Wehshat by Aroosh Khan
Gangster base | Army based | Forced marriage | Rude hero | Romantic Novel
بابا آپکو میں بچہ لگتا ہوں ؟؟؟ یہ سب ان فوجیوں کا کھیل ہے “
اپنی ناکامی چھپانے کے لئے یہ لوگ کسی بھی معصوم پر الزام لگا ” لیں گے۔
تبھی شاویز کی نظر ٹی وی پر چلتی خبر پر پڑی تو وہ آگے بڑھا اور ٹی وی کو ان میوٹ کر گیا۔ جہاں آرمی کا ایک آفیسر کوئی پریس کا نفرنس کر رہا تھا اور میر زاد بلوچ کے لیٹر کی تصویر ایک سائڈ پر چل رہی تھی۔
ہماری انویسٹیگیشن ٹیم نے بر وقت اس حادثے کے قصور وار ” کو ڈھونڈ نکالا ہے اور ایک اور بات جو سامنے آئی ہو وہ یہ ہے کہ یہی آدمی یونیورسٹی میں بچوں کو ڈر گز بھی سپلائی کرتا ہے۔ پچھلے مہینے ہمارے جوانوں نے اسی انسان کے گرو کو پکڑا تھا۔ یہ شخص اپنے بیٹے کو استعمال کر کے بلاسٹ کروانا چاہتا تھا مگر اسکا بیٹا بھی
” اسی بلاسٹ میں مارا گیا
تبھی مراد کی تصویر سکرین پر جھلملانے لگی
شورائم کے اندر غصے کی ایک شدید لہر ڈوری اس نے پاس پڑا
گلدان اٹھا کر پوری قوت سے سکرین پر دے مارا
ایک جھٹکے میں سکرین چکنا چور ہو گئی
سب حیرت سے شورائم کا جنونی انداز دیکھ رہے تھے
چھوٹ بولتے ہیں یہ سب ۔۔۔ مراد ایسا نہیں تھا یہ سب ان “
” فوجیوں کا کیا درہ ہے
وہ چلا رہا تھا
وہ پاس پڑی چیزیں اٹھا اٹھا کر زمین پر پھینک دیا تھا شاویز اور ناہید نے اسے کنڑول کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ قابو میں کہاں آتا تھا۔
تب ولائت شاہ آگے بڑھے اور ایک ذور دار تھپڑ شورائم کے منہ پر پڑا وہ گال ہے ہاتھ رکھے بی یقینی سے ولائت شاہ کو دیکھ رہا تھا جو خود اپنے ہاتھ کو شاک کے عالم میں دیکھ رہے تھے۔
یہ شور ائم کو پڑھنے والا پہلا تھپڑ تھا۔ سبھی حیرت سے باپ بیٹے کو دیکھ رہے تھے جو ایک دوسرے کے مقابل تھے۔ ولائت شاہ کی آنکھوں میں بے یقینی اور غصہ تھا تو شورائم کی آنکھوں میں بس ایک جزبہ تھا وحشت۔۔۔۔۔
آپ نے مجھے مارا ان جھوٹے لوگوں کی وجہ سے آپ نے مجھ پر ” ” ہاتھ اٹھایا ؟؟؟
وہ بے یقینی سے کہنے لگا ہاں شورائم کیوں کہ تمہیں اس تھپڑ کی ضرورت تھی۔ تم سچ کو “
” دیکھ اور سمجھ نہیں رہے سچ یہ جو آپکا سچ ہے نا اس سچ کا سچ میں ایک دن ثابت کر دوں گا “
آئی پر امس۔۔۔۔۔
اور یہ بات یادر ، یاد رکھیے گا پیر ولائت احمد شاہ جب تک میں یہ سچ آپکے سامنے نہیں لے آتا کہ میر ا دوست بے قصور ہے میں آپ سے بات تک نہیں کروں گا۔ اور یہ تھپڑ بھی کبھی نہیں بھولوں گا
” اور نا آپکو بھولنے دوں گا۔
وہ پہلی بار اتنے روڈ لہجے میں اپنے باپ سے بولا تھا۔ ولائت شاہ تو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کی جیتی جاگتی تصویر بن چکے تھے۔
” بابا سائیں وہ ڈسٹر بڑ ہے اس لیے ایسا کہ گیا “
شاویز نے باپ کو تسلی دی
شاہ بی بی شورائم کے پیچھے ڈوری جس نے خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا اور اب اندر سے توڑ پھوڑ کی آوازیں آرہی تھی۔
شورائم میری جان دروازہ کھولو۔۔۔۔۔۔
وہ کتنے ہی لمحے دروازہ بجاتی رہی مگر وہ ناکھلا
