گاڑی ہوائوں سے باتیں کرتی ابراہیم پیلس پہنچی تھی۔۔۔۔لب بھینچے اسکا چہرہ ضبط سے سرخ تھا۔۔۔۔بس نہیں چل رہا تھا کہ سب کچھ تہس نہس کر دے۔۔۔۔اسکی اتنی جرآت کے مظاہرے نے اسامہ کو آتش فشاں بنا دیا تھا۔۔۔۔جو بس پھٹنے کو تیار تھا۔۔۔۔سیاہ آنکھیں انگاروں کی مانند دہک رہیں تھیں۔۔۔

ٹھاہ سے گاڑی کا دروازہ بند کرتے وہ جارحانہ قدموں سے اندر بڑھا۔۔۔عصرہ بیگم فون پر بات کر رہیں تھیں جب اسے آتے دیکھا۔۔۔۔۔اسکا سرخ چہرہ کسی انہونی کا پتا دے رہا تھا تبھی وہ سرعت سے فون کاٹتیں اسکی طرف بڑھیں۔۔۔۔۔

” پرنس کیا ہوا ہے؟؟۔۔۔۔اسامہ بیٹا بات سنیں۔۔۔۔۔۔”

وہ تیزی سے بولیں مگر وہ بڑی بے دردی سے انکی بات نظر انداز کرتا سیڑیاں ایک ہی جست میں پھلانگتے اپنے کمرے میں بند ہو گیا۔۔۔۔نیچے وہ اسکی بے رخی پر نم آنکھیں لیے اسکا دروازہ دیکھتیں رہ گئیں۔۔۔۔

پورے زور سے کمرے کا دروازہ بند کرتے اسنے ساتھ رکھے واز کو پوری شدت سے ٹھوکر ماری ۔۔۔کچھ دیر قبل عصرہ بیگم کا سامنا اسے زری کی گئی جرآت سے زیادہ طیش دلا گیاتھا ۔۔۔۔جیکٹ اتار کر شرٹ بھی اپنے وجود سے الگ کرتے وہ الماری کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔۔پٹ کھولتے وہاں رکھی لاتعداد بوتلوں میں ایک اٹھا کر اسکی سیل کھولتے اپنے لبوں سے لگا لی۔۔۔۔۔گھونٹ گھونٹ وہ زہر اپنے اندر انڈیلتے اسکی نظروں میں وہی منظر چل رہا تھا۔۔۔یکلخت اسے اپنا گال جلتا محسوس ہوا۔۔۔۔۔

” آہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔”

زور سے چیختے اسنے کھینچ کر بوتل زمین پر دے ماری۔۔۔جو کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی۔۔۔۔پورا کمرے اسکی دھاڑ سے گونج اٹھا۔۔۔سخت اشتعال میں آگے بڑھ کر جو جو اسکے ہاتھ لگا اسنے اسے توڑ پھوڑ دیا۔۔۔۔ڈریسنگ ٹیبل پر پڑا سامان،ڈیکوریشن پیسزز اور پینٹنگز کمرے کی ہر چیز اسکے عتاب کا نشانہ بنتی لمحوں میں چکنا چور ہو گئی۔۔۔۔لیکن اسکا غصہ تھا کہ کم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

” بہت برا کیا ہے تم نے لڑکی۔۔۔۔۔۔بہت برا۔۔۔۔”

تیز ہوتے تنفس سے وہ جنونی انداز میں غرایا تھا۔۔۔اسکی غراہٹ میں اژدھوں کی پھنکار تھی۔۔۔۔جو زری کی بربادی کا آغاز تھی۔۔۔۔وہ نہیں جانتی تھی اسکی یہ چھوٹی سے غلطی اسے کیسی کھائی میں پھینکنے والی تھی۔۔۔۔

” تم نہیں جانتی اسامہ ابراہیم کون ہے۔۔۔۔۔لیکن بہت جلد جان جائو گی۔۔۔۔۔بہت جلد۔۔۔۔”

آئینے کے سامنے کھڑے ہوتے وہ اپنے عکس سے مخاطب تھا۔۔۔۔۔سرخ سیاہ آنکھیں،دہکتا چہرہ، بھینچے عنابی لب اور دھونکنی کی مانند چلتا تنفس وہ سراپا قہر تھا۔۔۔۔اسے اپنی رگوں میں ابال سا اٹھتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔

الماری سے ایک اور بوتل نکال کر لبوں سے لگاتے اسنے ایک سانس میں آدھی ختم کی اور اسے زمین پر اچھال دی۔۔۔۔ لڑکھڑاتے قدموں سے چلتے وہ بیڈ کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔اوندھے منہ بیڈ پر گرتے اسے چند پل لگے تھے دنیا و مافیہا سے غافل ہونے میں۔۔۔۔

💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫

وہ کس طرح گھر پہنچی تھی یہ صرف وہی جانتی تھی۔۔۔۔دل کسی سوکھے پتے کی مانند لرز رہا تھا۔۔۔۔پہلے ہی وقاص نام کی تلوار اسکے سر پر لٹک رہی تھی اور اب اپنی بےوقوفی میں اسنے اپنا ایک اور دشمن بنا لیاتھا۔۔۔۔جو اب نا جانے اسکے ساتھ کیا کرتا۔۔۔۔

اسکی سرخ آنکھیں یاد کرتے ہی اسکا دل خلق میں آرہا تھا۔۔۔۔کیا ضرورت تھی اتنا خوفزدہ ہونے کی؟؟؟ خود کو کوستے کئی آنسو بے مول ہوتے اسکے گالوں پر بہہ رہے تھے۔۔۔

آنے والے حالات کو سوچتے کئی طرح کے وسوسے اسکی دھڑکنیں روک رہے تھے۔۔۔۔

” زری۔۔۔ زری بیٹا آگئی تم؟؟؟۔۔۔دروازہ کھولو زری ۔۔۔۔”

باہر سے آتی زاہدہ بیگم کی آواز اسے زندگی کی نوید لگی تھی۔۔۔۔۔سرعت سے اٹھ کر اسنے دروازہ کھولا اور انکے گلے لگ گئی۔۔۔۔۔اسکے اتنے عجیب رویے پر وہ حیران رہ گئیں۔۔۔۔۔

” زری کیا بات ہے بیٹا؟؟۔۔۔کچھ ہوا ہے کیا بتائو ۔۔”

اسکی کمر سہلاتے وہ پریشانی سے بولیں تھیں۔۔۔۔۔اسکا ہچکولے لیتا بدن کئی طرح کے وسوسے انکے دل میں اٹھا رہا تھا۔۔

” امم۔۔امی میں ڈر گئی تھی۔۔۔۔۔”

انکے سینے میں چہرہ چھپاتے وہ بمشکل بول پائی تھی۔۔۔۔اسکی بات سن کر انکے اعصاب ڈھیلے پڑے۔۔۔۔وہ جانتیں تھیں کہ وہ لوگوں سے خوفزدہ رہتی تھی ۔۔اسلیے اسکا ریکشن اس لحاظ سے انھیں اتنا عجیب نہیں لگا۔۔۔۔۔۔

” کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔شاباش پرسکون ہو جائو۔۔۔جب تک میں ہوں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا میری بیٹی کو۔۔۔۔ٹھیک ہے نا؟؟۔۔۔”

محبت سے اسکا سر تھپکتے وہ نرمی سے بولیں تھیں۔۔۔۔۔انکے لہجے کی نرمی ٹھنڈک بن کر اسکے دل میں اتری تھی۔۔۔۔۔

” چلو شاباش منہ ہاتھ دھو کر آجائو کھانا کھانے۔۔۔۔۔”

اسکا چہرہ صاف کرتے وہ نرمی سے بول کر چلیں گئیں۔۔۔۔۔

” آہ کاش کچھ غلط نا ہو۔۔۔۔میں کل اس سے معافی مانگ لوں گی۔۔۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ہمم یہ ٹھیک ہے۔۔۔۔۔”

انکی پشت کو دیکھ کر وہ ایک فیصلہ لیتی خود کو پرسکون کر گئی۔۔۔۔اپنا چہرہ صاف کرتے وہ قدرے ریلکس ہوتی واشروم کی طرف بڑھی۔۔۔۔۔۔

💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫

کئی جگہ انٹرویو دینے کے باوجود جواب نہیں مل رہاتھا۔۔۔۔خالی خولی انٹر کی ڈگری پر کون اسے کام دیتا ۔۔۔۔۔

آج کئی دن ہو گئے تھے اسے اسی طرح دھکے کھاتے مگر نتیجہ صفر۔۔۔۔۔سخت مایوسی سے چلتے وہ سامنے بنے ایک سکول کی طرف بڑھی۔۔۔۔کیا پتا کام بن ہی جائے یہی سوچ کر اسنے اپنے قدموں کی رفتار بڑھا دی ۔۔۔

” دیکھیں بات یہ ہے کہ یہ ایک پرائیوٹ سکول ہے اور یہاں ٹیچر کا ماسٹرز ہولڈر ہونا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تو آپ سمجھ گئی ہوں گی مس فاطمہ کہ آپ اس پوسٹ کے لیے اہل نہیں ہیں۔۔۔۔”

ہیڈ پرنسپل نے بڑی بے دردی سے انکار کیا جس پر اسکے اندر سناٹے اترے چلے گئے۔۔۔۔۔

” بٹ میم مجھے ایک چانس دیں میں وعدہ کرتی ہوں آپکو مایوس نہیں کروں گی۔۔۔۔۔”

وہ دھیمی آواز میں لجاجت سے بولی۔۔۔۔

” ہمم۔۔۔چلیں میں ایک کام کرتی ہوں آپکو ٹرائل پر رکھ لیتی ہوں۔۔۔اگر آپ کا کام اچھا ہوا تو آپکو اپوئینٹ کر لیا جائے گا ادروایز ایم سوری۔۔۔۔۔”

اسکے چہرے پر سجی پریشانی کو دیکھتے وہ کچھ نرمی سے بولیں جس پر فاطمہ کو لگا کسی نے اسکے مردہ تن میں جان پھونک دی ہو۔۔۔۔۔

” تھینک یو۔۔۔۔تھینک یو سو مچ میم آئی ول نیور ڈس اپوئینٹ یو۔۔۔۔۔”

جوش مسرت سے اسکا چہرہ چمک اٹھا تھا۔۔۔۔۔گرمجوشی سے ان سے ہاتھ ملا کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔۔الودعائیہ کلمات کہہ کر وہ باہر نکلی۔۔۔۔۔۔وہ جب اندر آئی تھی تو دل ہر طرح سے مایوس تھا۔ مگر اب جب وہ باہر جا رہی تھی تو چہرہ چمک رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔

آج کتنے دنوں بعد اسنے چین کی سانس لی تھی ۔۔۔۔۔روزگار کا ہونا اسکے لیے بہت اہم تھا۔۔۔پچھلی جاب جو کسی کے گھر جا کر بچوں کو پڑھاتی تھی۔۔۔ اسی لیے چھوڑی تھی کہ ان بچوں کا باپ اس پر بری نظر رکھنے لگا تھا ۔۔۔اپنی عزت سے زیادہ اسے کچھ عزیز نہیں تھا تبھی بنا اپنی تنخواہ لیے وہ گھر آگئی۔۔۔۔۔مگر اب نوبت فاقوں پر آگئی تھی تبھی وہ ایک بار پھر قسمت آزمانے میدان میں اتری۔۔۔۔۔۔اور آج اللہ کے کرم سے اسے کامیابی مل ہی گئی تھی چاہے وہ عارضی تھی مگر اسکی کئی طرح کی ضرورتوں کو پورا کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔تبھی تو اسکا دل خوشی سے لبریز تھا۔۔۔۔۔

💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫

وہ ایک وسیع صحرا تھا جسکے بیچ و بیچ وہ خود کھڑا تھا۔۔۔سورج سوا نیزے پر معلوم ہو رہا تھا۔۔۔۔ریت کسی تانبے کی طرح تپ رہی تھی جسکی تپش سے اسے اپنے تلوے جلتے محسوس ہو رہے تھے۔۔۔۔۔مگر ستم یہ تھا کہ وہ چلنے سے قاصر تھا۔۔۔۔۔

وہ ریت کسی دلدل کی مانند اسے اپنے اندر نگل رہی تھی۔۔۔۔اسکی ہراساں نظریں دور دور تک کسی کو ڈھونڈ رہیں تھیں مدد کے لیے۔۔۔۔۔مگر سوائے ریت کے ٹیلوں کے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔۔۔

اسکا دل خوف سے لرز رہا تھا۔۔۔جسم پورا پسینے سے شرابور تھا۔۔۔۔۔دفتا نگاہ دور کھڑے نسوانی وجود پر پڑی۔۔۔سیاہ چادر میں لپٹاوہ وجود اسے نئی زندگی کی مانند محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔۔

” سنو۔۔۔۔سنو پلیز میری مدد کرو ۔۔۔۔۔تم سن رہی ہو ؟؟۔۔۔۔۔میری مدد کرو پلیز۔۔۔۔”

وہ چیخ کر اس سے مخاطب ہوا مگر وہ اسے نظرانداز کیے چلتی جا رہی تھی۔۔ اسکا یوں خود کو نظرانداز کرکے چلے جانا اسے مزید وخشتزدہ کر گیا۔۔۔۔۔

” سنو رک جائو۔۔۔پلیز رک جائو میری مدد کرو پلیز رک جائو میرے لیے۔۔۔۔۔۔”

سینے تک خود کو ریت میں دھنستے دیکھ وہ خوف کی شدت سے چلایا تھا۔۔۔لمحہ لمحہ اپنی موت کو سامنے دیکھتے اسکا دل پھٹنے کو تھا۔۔۔۔۔۔۔اور اسے یوں خود سے دور جاتے دیکھ اسے لگا وہ سانس نہیں لے پائے گا۔۔۔۔

” مت جائو پلیز ۔۔۔۔رک جائو۔۔۔۔۔”

پھوٹ پھوٹ کر روتے وہ ازیت کی شدت سے بے آواز بڑبڑایا تھا۔۔۔وہ وجود اب میلوں کی دوری پر نظر آرہا تھا جس نے اسے اذیت کے بھٹی میں پھینک دیا۔۔۔۔۔۔۔کئی آنسو اسکے گالوں پر بہتے نیچے ریت میں جذب ہو گئے۔۔۔۔۔

” مجھے چھوڑ کر مت جائو۔۔۔۔۔۔”

خود کو زندہ دفن ہوتے دیکھ اسکے لبوں سے چیخ کی صورت یہ لفظ ادا ہوئے تھے۔۔۔۔۔بھیگی آنکھوں سے وہ وجود اوجھل ہو گیا اور ہر سو ریت ہی ریت تھے۔۔۔۔جس نے حقیقتا اسکی سانسیں روک دیں۔۔۔۔۔۔

” نہیں رک جائو۔۔۔۔۔۔”

جھٹکے سے آنکھیں کھولتے وہ بڑبڑایا تھا۔۔۔۔۔آنکھیں کھولتے جو منظر نظر آیا وہ اسکے کمرے کا تھا ۔۔۔۔۔پورا بدن پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔۔۔سامنے کھڑکی سے نظر آتا آسمان تاروں سے چمک رہا تھا یعنی ابھی آدھی رات بھی نہیں گزری تھی۔۔۔۔۔

پچھلے 6 سالوں میں کتنی ہی بار اسنے خود کو ایسی حالت میں دیکھا تھا منظر ہر بار وہی ہوتا مگر آج وہاں موجود نسوانی وجود پہلی بار نظر آیا تھا ۔۔۔۔جس نے اسے حیران کر دیا۔۔۔۔۔۔وہ قسم کھا کر کہہ سکتا تھا کہ وہ وہی تھی جسے پچھلے 6 سالوں سے اسکی آنکھیں دیوانہ وار ڈھونڈ رہیں تھیں مگر وہ تھی کہ ایسی چھپی تھی کہ مل ہی نا پائی۔۔۔۔۔۔۔اور آج اسے یوں اپنے خواب میں دیکھتے وہ نئے سرے سے بے چین ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔پرانے زخم کھل گئے تھے جن پر بڑی مشکل سے کھرنڈ آسکا تھا۔۔۔۔۔

” کیوں نہیں تم مل جاتی مجھے؟؟؟۔۔۔۔ میں جانتا ہوں تم یہیں کہیں ہو بس میری نظروں سے دور ہو ۔۔۔۔مل جائو یار اس سے پہلے یہ دھڑکن تھم جائے۔۔۔۔۔۔”

اپنے چہرے کو صاف کرتے وہ بڑی بے بسی سے بولا تھا۔۔۔لہجے میں زمانوں کی تھکن نمایاں تھی۔۔۔۔اور آنکھوں میں اسکی شبیہ اول روز کی طرح روشن تھی جس نے اسکے دل کو مزید تڑپا دیا۔۔۔۔۔۔۔کتنے آنسو اسکے چہرے پر بے آواز بہتے چلے گئے۔۔۔۔۔۔

💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *