Gul E Kohsar Novel By Farah Bukhari
پہ جھکا اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ سمجھ نہیں پا رہا۔ تم سے معافی مانگوں اپنی کو
تاہیوں پر یا شکوہ کروں تمہارے گریز کا اسجد نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا، گل آویزہ نے
اپنے آنکھیں بند کرلیں۔ شاید نہیں کرنی تھیں۔ اس کے محبوب کی دلیری میں کچھ اور
اضافہ ہوا۔ گل آویزہ نے اس کی گرم سانسوں کو اپنے بہت قریب محسوس کیا
اور پھر اپنی پیشانی پر اس کے ہونٹوں کا نہیں جان سکڑ کر شاید پیروں سے جا چکی تھی۔
وہ اتنی بے بس کبھی بھی نہیں تھی۔ اسجد کی جان بچانے کی خاطر ہر خطرے میں کو
پڑنے والی کو ایسے نازک لمحوں کی ڈوریاں سکھانے کا کچھ سلیقہ نہیں تھا۔ وہ اپنی پینے
سے تو مٹھیوں کو بھینچے ہوئے تھی۔ اسجد کی بے خودی بوستی جارہی تھی۔ تو کیا چاہے
جانے کی خواہش کسی کو فقط چاہتے چلےجانے کے جذبے پر اتنی بھاری ہو جاتی ہے۔
گل آوینہ کا احساس نے بھی کب خود سپردگی میں تبدیل ہونے لگا فرق کرنا مشکل تھا۔ اور
اس کا خان جو ہرگز اپنی والہانہ محبت کو کل تک ٹالنے کے موڈ میں نہیں تھا اس کی خاموشی
کو اس کی رضامندی سمجھتے ہوئے اس کے اتنے قریب آگیا کہ واپسی کی راہ پر اپنا اختیار بھی کھوبیٹھا۔