سامنے تا حد نگاہ تک پھیلے لان کو دیکھتے اسکے اندر سناٹے اترتے چلے گئے تھے۔۔۔۔بھوری آنکھوں میں نمی بڑھتی چلی گئی تھی۔۔۔۔جو اب لڑکھ کر اسکے سانولے گال پر بہہ آئی۔۔۔۔۔ چاند کی روشنی میں اسکی سانولی رنگت کچھ سیاہی مائل محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔۔سیاہ بال اسکی کمر پر آزاد سے بکھرے پڑے تھے۔۔۔۔۔کچھ لٹوں نے اسکے چہرے کا احاطہ بھی کیا ہوا تھا۔۔۔
رات کی رانی کی مہک ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔کمرے میں اندر اسکی اماں اور بہن بھائی سو رہے تھے مگر اسکی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔۔۔۔۔۔اور یہ اسکے ساتھ آج پہلی بار نہیں ہو رہا تھا کتنی ہی راتیں اسنے یوں ہی جاگ کر گزاریں تھیں۔۔۔۔۔۔اپنے باپ کی چھائوں میں گزرے سال اسکے لیے جنت سے کم نا تھے۔۔۔۔مگر صدا کوئی جنت میں تھوڑی رہا ہے جو وہ رہتی۔۔۔۔۔باپ کی وفات کے بعد اسے صحیح معنوں میں زمانے کی بے حسی کا احساس ہوا۔۔۔۔۔جب انھیں اس آشیانے سے بےدخل کر دیاگیا جو اسکے باپ نے بہت محبت سے سجایا تھا۔۔۔جہاں وہ اور اسکا خاندان سکون کی زندگی گزار رہے تھے۔۔۔۔۔مگر ددھیال والوں نے قدر نا جانتے ان تینوں یتیموں کو ماں سمیت بے دخل کر دیا ۔۔۔۔
سر پر چھت نا تھی تبھی اسکی ماں مجبور ہو کر اپنے بھائی کے در پر آ بیٹھی جہاں اسکی بھابھی کی حکومت قائم تھی۔۔۔۔۔بھائی نے محبت سے مجبور ہو کر چھت تو دے دی مگر باقی ضرورتوں سے نظریں چرا لیں۔۔۔تب اسکی ماں نے سلائی کر کے گھر کا نظام چلایا۔۔۔۔مگر بھائی سے پھر کبھی کسی چیز کی گزارش نہیں کی۔۔۔۔۔ان تمام حالات میں بھی اسکی ماں نے لبوں پر حرف شکایت نہیں لایا ۔۔۔انکے صبر کے سامنے تو وہ بھی اکثر نظریں جھکا لیا کرتی تھی۔۔۔کتنے ہی موقع آئے جب اسے اپنا ضبط ٹوٹتا محسوس ہوا مگر جب جب اسنے اپنی ماں کی طرف دیکھا تو نئے سرے سے صبر ملا۔۔۔جسے تھامے وہ آج تک اندر سے ریزہ ریزہ ہونے کے باوجود ڈٹ کر کھڑی تھی۔۔۔۔
لیکن اس سب میں وہ اندر سے ٹوٹ چکی تھی۔۔۔۔ماموں زاد کزنوں نے کبھی ایسا موقع نہیں گنوایا تھا جب وہ اسکی تزلیل نہ کر سکیں۔۔۔مامی کے ناروا سلوک کے باوجود وہ خاموش رہا کرتی تھی۔۔۔مگر بات اگر لفظوں تک محدود ہوتی تو اب بھی وہ صبر سے کام لے لیتی مگر۔۔۔
اسکے ماموں زاد وقاص کی بے ہودہ حرکتوں اور ہوس زدہ نظروں نے اسے بکھرنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔۔اور یہ سب وہ کسی سے کہہ بھی تو نہیں سکتی تھی۔۔۔مامی پہلے ہی انکے رہنے کے خلاف تھی اب اگر وہ یہ کہتی کہ وقاص نے اس پر بری نظر ڈالی ہے اسکا تو کچھ نا جاتا مگر اسکی ماں اور اسکی اپنی عمر بھر کی ریاضت ضائع ہو جاتی جو وہ کسی طور نہیں چاہتی تھی۔۔۔اسلیے اندر اندر کڑھتی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مرد زات سے خوفزدہ رہنے لگی۔۔۔۔اپنے اندر اعتماد کی کمی کی وجہ سے وہ تنہائی پسند ہوتی چلی گئی۔۔۔۔۔بھوری آنکھوں میں ہمہ وقت ایک خوف سا بسنے لگا جس نے وقاص کو اور شہہ دی۔۔۔۔۔
اور آج اسکی جرآت نے اسے توڑ کر رکھ دیاتھا۔۔۔۔گھر میں کئی ملازم ہونے کے باوجود مامی اسے اسکی اوقات یاد دلائے بغیر نہیں رہ سکتیں تھیں۔۔۔تبھی کئی طرح کے کام اس سے کرواتیں ۔۔۔۔ابیہا اور ولید کو تو اسنے کبھی انکا نشانہ نا بننے دیا مگر خود کو بچا نہیں پائی۔۔۔۔۔
آج بھی وہ معمول کے مطابق ان سب کے کپڑے استری کرکے کمرے میں رکھ رہی تھی۔۔۔جب وہ کسی بلا کی طرح وہاں نازل ہوا اور بڑی جرآت سے دروازہ لاک کردیا۔۔۔گھر میں کوئی نہیں تھا۔۔۔ماموں مامی کسی پارٹی میں گئے تھے۔۔۔اور فاریہ اپنے کمرے میں تھی اس سب میں اگر وہ کسی کو بلاتی بھی تو کسی نے نہیں آنا تھا۔۔۔تبھی وقاص مطمئن تھا اور اسکی اسی بے فکری نے اسے بدہواس کر دیا۔۔۔۔سارے کپڑے وہیں پھینک کر اسکے خود تک پہنچنے سے پہلے وہ لان کی طرف کھلنے والی بالکونی کی طرف بھاگی۔۔۔۔مگر بیچ میں ہی وہ اسے کمر سے تھام کر اپنے سینے سے لگا گیا۔۔۔۔۔اور زری کو لگا کسی نے اسے جلتے کوئلوں کی بھٹی میں پھینک دیا تھا۔۔۔۔پورا وجود جل اٹھا۔۔۔۔۔اسنے ہراساں ہو کر اسکی طرف دیکھا جو اسکے چہرے پر جھک رہا تھا ۔۔۔۔
اپنی پوری جان لگا کر اسے خود سے دور کرنا چاہا مگر اسکی گرفت کسی اژدھے کی مانند اسکی کمر کے گرد حائل تھی۔۔۔۔اپنے گال پر اسکے لبوں کا غلیظ لمس اسے کسی انگارے کی مانند ہوا جس سے اسکا گال دہک اٹھا تھا۔۔۔۔بے بسی کے شدید احساس تلے اسکے بھوری آنکھیں سمندر سمیٹ لائیں۔۔۔۔۔اس لمحے اسنے زمین میں دفن ہونے کی دعا کی تھی۔۔۔۔۔آہ کاش کوئی اسے اس درندے سے بچاتا۔۔۔۔۔۔مگر کسی نے نہیں آنا تھا۔۔۔جو بھی کرنا تھا اسے اپنی مدد آپ کرنا تھا۔۔۔۔
” تم بہت خوبصورت ہو زری جان ۔۔اور ہر خوبصورت چیز کا نظرانہ تو دینا بنتا ہے نا؟؟؟
وہ مدہوش سا اس سے پہلے اسکی گردن پر جھکتا زری نے پوری جان لگا کر اسے خود سے دور دھکیلا۔۔۔اور اسکے کچھ سمجھنے سے پہلے سائیڈ ٹیبل پر پڑا شوپیس کھینچ کر اسے دے مارا جو اسکے ماتھے پر لگا تھا ۔۔۔اور خون بھل بھل بہنے لگا۔۔۔۔وہ درد سے چیختا نیچے بیٹھتا چلا گیا۔۔اور اسی موقع کا فائدہ اٹھاتے وہ اپنے دوپٹے کو دبوچتی سرعت سے بالکونی میں بھاگی اور دروازہ بند کر دیا۔۔۔وقاص کا کمرہ فرسٹ فلور پر تھا تبھی وہ بغیر کسی پس وپیش کے لان میں کود گئی۔۔۔۔۔بنا پیچھے مڑے تیزی سے بھاگتے اسنے اپنے کمرے میں آکر دم لیا تھا۔۔۔۔۔بھوری آنکھیں بری طرح بھیگ رہیں تھیں۔۔۔اور پورا بدن کپکپا رہا تھا۔۔۔۔انہونی کے احساس تلے دل کی دھڑکن حد سے سوا تھی۔۔۔۔اگر وہ اپنا بچائو نا کرتی تو؟؟؟۔۔۔۔ اس تو کے آگے سوچتے بھی اسکے رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے۔۔۔۔۔۔
” آہ اللہ کرے تم برباد ہو جائو وقاص احمد ۔۔۔تم۔۔تم۔۔۔۔۔”
اذیت کی شدت سے اس سے بولا نہیں گیا اور پھوٹ پھوٹ کر روتے وہ بیٹھتی چلی گئی۔۔۔۔۔مگر اذیت تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔۔۔
بارہا ضبط کی کوشش میں وہ ٹوٹ کر بکھری تھی۔۔مگر آج کے واقعہ نے تو اسے اسکی ہستی سمیت زمین بوس کر دیا تھا۔۔۔۔کیا وہ مفت کا مال تھی جو اس درندے کی نظر اس پر ٹہر گئی۔۔۔۔۔کیوں؟؟ اس نے تو کبھی زندگی میں اسکی طرف دوسری نگاہ تک نا ڈالی تھی تو وہ کیسے اتنی جرآت کا مظاہرہ کر گیا؟؟؟؟
کیوں وہ اتنی بے بس تھی کہ اس سے اپنا بچائو تک نہیں کر پاتی تھی۔۔۔اور اسی بات کا تو وہ فائدہ اٹھاتا تھا۔۔۔لیکن آج تو حد ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔اپنی چیخوں کو دبانے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھتے وہ گھٹ گھٹ کر روتی چلی گئی۔۔۔۔بدن کسی خزاں رسیدہ پتے کی مانند لرز رہا تھا۔۔۔۔۔ڈھلتے سورج کی روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔۔۔۔ مگر اسکی زندگی تو اندھیروں میں ڈوبی تھی۔۔۔ایسے اندھیروں میں جہاں سے رہائی ممکن تھی یا نہیں یہ وقت نے طے کرنا تھا۔۔۔۔۔مگر ابھی تو اسکے درد میں شامل درودیوار بھی غمزدہ تھے جو اسکے دکھ درد کے ساتھی تھے۔۔۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
وقار احمد کو اللہ نے دو اولادوں سے نوازہ تھا۔۔۔۔بڑا بیٹا آصف احمد اور بیٹی زاہدہ احمد۔۔۔۔آصف کی شادی وقار احمد نے اپنی سالی کے گھر سے کی جو سکینہ بیگم کی سوتیلی بہن تھی۔۔۔اور کافی طرہدار تھی۔۔۔۔اونچے گھر میں بیاہی ہونے کی وجہ سے اسکا دماغ بھی کافی اونچا تھا۔۔۔۔بیٹی رابعہ بھی کسی سے کم نہیں تھی۔۔۔۔وقار احمد اگر بہت امیر نہیں تھے تو مڈل کلاس بھی نہیں تھے۔۔۔ان کی اپنی لیدر گڈز کی فیکٹری تھی۔۔۔لیکن رابعہ بیگم کے لیے یہ سب ناکافی تھا۔۔۔اور آصف صاحب تو تھے ہی بیوی کے غلام جو وہ کہتی بجا لاتے۔۔۔ اپنی نند زاہدہ سے تو انھیں خدا واسطے کا بیر تھا۔۔۔اسلیے جب سکینہ بیگم کا انتقال ہوا تو فورا اسکی شادی اپنے باپ کی کمپنی کے مینیجر سے کردی۔۔۔۔وقار احمد تب کافی بوڑھے ہو چکے تھے۔۔۔بیٹے اور بہو کی حکومت کے آگے انکی ایک نا چل سکی۔۔۔ اسطرح زاہدہ بیگم بیاہ کر ریحان مرزا کے گھر چلی گئیں اور یوں رابعہ بیگم نے سکون کا سانس لیا۔۔۔۔اب سارے مہرے ان کے ہاتھ میں تھے وہ جب چاہے زاہدہ اور ریحان صاحب کی تضحیک کرتیں یوں نتیجہ یہ نکلا کہ زاہدہ بیگم نے مائیکے جانا چھوڑ دیا۔۔۔ساس نندیں تو ٹھیک نہیں تھیں مگر ریحان صاحب کافی اچھے ہمسفر ثابت ہوئے اور اسی وجہ سے زاہدہ بیگم نے ساس نندوں کے ظلم خاموشی سے برداشت کیے۔۔۔۔۔۔
12 سال کی مختصر سی رفاقت کے بعد ایک رات ریحان صاحب انھیں بے آسرا کرتے ابدی سفر پر روانہ ہو گئے۔۔۔تب ولید چھ سال کا تھا۔۔۔۔۔ابیہا 8 سال اور زری 11 سال کی تھی۔۔۔۔اسکے لیے اسکے بابا آئیڈل تھے۔۔۔جو اسکی ہر چھوٹی بڑی خواہش پوری کرتے ۔۔مگر اب اچانک وہ ہمیشہ کے لیے اسے چھوڑ کر چلے گئے تو اسکا ننھا ذہن اس بات کو قبول نہیں کر پایا۔۔۔۔کچھ وہ ابیہا کے مقابلے سانولی رنگت کی تھی اسلیے مامی پھوپھو لوگ اسکا مزاق اڑاتے تھے۔۔۔۔اسلیے وہ باپ کے یوں بے سہارا کر دینے پر احساس کمتری کا شکار ہو گئی۔۔۔۔۔
اعتماد کی کمی اور بے حد حساس ہونے کی وجہ سے اسے لوگوں کے رویے جلدی محسوس ہونے لگے۔۔۔یوں وہ تنہائی کا شکار ہو گئی۔۔۔۔لوگوں سے گھلنا ملنا کم کر دیا۔۔۔۔۔4 ماہ کے مختصر عرصے میں اسکی زات میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں جس سے زاہدہ بیگم غافل رہیں۔۔۔اپنی عدت کا عرصہ انھوں نے بڑی مشکل سے سسرال میں گزارا ۔۔۔۔عدت مکمل ہوتے ہی انکی ساس نندوں نے انھیں گھر سے بے دخل کر دیا ۔۔۔۔۔۔اور اس طرح وہ پھر سے باپ کی دہلیز پر آبیٹھیں۔۔۔۔۔رابعہ بیگم یوں انھیں پھر سے اپنے گھر میں دیکھ کر بلبلا اٹھیں تھیں ۔۔۔کافی ہنگامے ہوئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وقار احمد نے انیکسی قانونی طور پر زاہدہ کے نام کر دی۔۔۔۔چھت تو انھیں میسر آگئی مگر کچھ ماہ بعد باپ کے سائے سے محروم ہو گئیں۔۔۔
وقار احمد کی موت کے بعد رابعہ بیگم نے اپنے رنگ ڈھنگ دیکھانے شروع کردئیے۔۔۔۔جس کے نتیجے میں آصف صاحب مکمل طور پر ان سے غافل ہو گئے۔۔۔۔۔یوں اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے زاہدہ بیگم نے اپنی دوست کے توسط بوتیک میں سلائی کا کام شروع کیا جس سے گھر کے اخراجات پورے ہونے لگے۔۔۔۔۔زری اس عرصے میں اپنی عمر سے بڑی ہو گئی تھی۔۔۔۔بچپن تو پہلے ہی اندھیروں میں گم ہو گیا تھا اور اب لڑکپن میں وہ سنجیدہ اور حساس ہو گئی۔۔۔فاریہ اور وقاص کے ہتک آمیز رویے کی وجہ سے اس میں خود اعتمادی نام کی رہ گئی۔۔۔۔اور اب اسکی بد نظر نے اسے بلکل ہی خوفزدہ کر دیا۔۔
مردوں سے اسکا اعتبار اٹھ گیا۔۔۔۔بری صحبت نے وقاص کو بگاڑ کر رکھ دیا۔۔۔ماں کے لاڈ پیار کی وجہ سے فاریہ بھی بگڑ گئی۔۔جو جی میں آتا وہ کرتی۔۔۔ زری کی سانولی رنگت کا مزاق اڑائے بنا تو ان دونوں بہن بھائی کو نیند نہیں آتی تھی۔۔۔۔۔مگر اس سب میں وہ یہ بھول گئے تھے کہ ایک نازک سا دل بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔۔۔جس کی کرچیوں کو سمیٹتے سمیٹتے زری کو ایک عمر لگ جانی تھی۔۔۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
” ایبک پرنس اٹھ گئے ہیں؟؟۔۔۔۔”
اپنی ساڑھی کی فال سنبھالتے انھوں نے بڑی محبت سے پوچھا تھا۔۔۔
“نو میم۔۔۔۔۔”
ایبک کا نفی میں دیا گیا جواب سن کر وہ چونک گئیں۔۔۔۔گھڑی دیکھی جو دن کے بارہ بجا رہی تھی۔۔۔۔۔وہ سمجھ گئیں اسکے دیر تک سونے کی وجہ۔۔۔۔بے ساختہ گہری سانس لیتیں وہ پیچھے صوفے پر ڈھ گئیں۔۔۔۔۔۔وہ انھیں ہر روز نئے سرے سے اذیت دیتا تھا۔۔۔۔۔انکا پور پور زخم آلود تھا۔۔۔۔آنکھیں نمی سمیٹ لائیں مگر اس نمی کی وجہ بننے والا بڑے سکون سے سو رہا تھا۔۔۔۔۔یا شاید سکون حاصل کرنے کے لیے وہ یہ سب کرتا تھا۔۔۔۔۔۔جو بھی تھا ان کا دل بڑی بے دردی سے توڑ دیتا تھا۔۔۔۔۔۔اور وہ اف بھی نا کر پاتیں کیونکہ وہ انھیں اپنی سب اولادوں میں سب سے زیادہ عزیز تھا۔۔۔ وہ اسکے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں تھیں۔۔۔یہ بات وہ اول روز سے جانتیں تھیں۔۔۔۔۔۔مگر ہر بار وہ اسکا ہتک آمیز رویہ دیکھ کر نئے سرے سے اذیت محسوس کرتیں تھیں۔۔۔۔۔
” کیا بات ہے مسز۔۔۔آپ ایسے کیوں بیٹھی ہیں؟؟؟۔۔۔۔۔”
ہال میں آتے رجب صاحب نے انھیں یوں مجسمہ بنے دیکھ کر حیرت سے استفار کیا مگر ان کے چہرے پر رقم اذیت دیکھ کر انھیں جواب کی ضرورت نا رہی۔۔۔۔لب بھینچ کر ایک نگاہ سیڑھیوں پر ڈالی۔۔۔۔اس ایک نگاہ میں کیا کچھ نا تھا لیکن سمجھنے والا سمجھنے سمجھانے کی حدود سے مبرا تھا۔۔۔۔۔اور اس احساس نے انھیں گہرا سانس لینے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔۔۔
” ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے عصرہ۔۔۔۔۔اور مجھے یقین ہے اسکی واپسی کا وقت نزدیک ہے۔۔۔۔۔۔صبر رکھیں۔۔۔۔۔”
ان کے شانے پر رکھتے وہ سنجیدگی سے گویا ہوئے۔۔۔۔ان کی تسلی پر وہ ضبط کھو کر رو دیں۔۔۔۔۔۔انھیں اپنے حصار میں لیتے ان کی آنکھیں جل رہیں تھیں۔۔۔۔۔وہ جانتے تھے انکی تسلی نے ان پر کیا قہر ڈھایا ہو گا۔۔۔مگر ان کے پاس سوائے تسلی کے کچھ اور تھا بھی تو نہیں۔۔۔۔
” خود پر قابو رکھو بیگم۔۔۔۔۔اسے آپکی ضرورت ہے۔۔۔۔”
انھیں خود سے الگ کرتے وہ بڑی دقت سے بول پائے تھے۔۔۔۔۔انکے چہرے پر بہتے آنسوں انھیں کسی جہنم میں غرق کر گئے۔۔۔اور یہ تو وہ ازل سے جانتے تھے کہ اس سب کی وجہ وہ خود تھے ۔۔۔وہ نا ہوتے تو آج وہ اس انتہا تک نا پہنچتا۔۔۔۔مگر انھوں نے یہ سب جان بوجھ کر تو نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔وہ خود وقت کی بچھی بساط کے مہرے تھے۔۔۔۔
” اسی امید پر تو پچھلے 15 سال سے جی رہی ہوں رجب۔۔۔۔۔مگر یہ انتظار تو ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔۔۔۔۔”
وہ بھرائی آواز میں بولیں۔۔۔لہجے میں زمانوں کی تھکن نمایاں تھی۔۔۔۔۔
” سب بہتر ہو گا انشاءاللہ۔۔۔۔۔چلیں بریک فاسٹ کرلیں شاباش۔۔۔۔۔”
انھیں محبت سے بہلاتے وہ ڈائینگ ہال کی طرف بڑھ گئے۔۔۔مگر عصرہ بیگم نے ایک حسرت بھری نگاہ اوپر موجود کمرے پر ضرور ڈالی تھی۔۔۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
مسلسل بجتی رنگ ٹیون پر تکیے میں سر دئیے سوئے ہوئے وجود نے جھنجھلا کر تکیہ نیچے پھینکا۔۔۔۔۔سائیڈ ٹیبل سے جھپٹ کر سیل فون اٹھایا۔۔۔۔۔اور سنے بغیر آف کرتے بیڈ پر پھینک دیا۔۔۔۔تھوڑی دیر یوں ہی کسلمندی سے پڑے رہنے کے بعد وہ سیدھا ہوا۔۔۔۔۔نیم تاریک کمرے میں وال کلاک کو دیکھنے کی کوشش کی مگر گھومتے سر اور دھندھلی بصارت نے ناکام کر دیا جس کی وجہ سے اسکی جھنجھلاہٹ میں اور اضافہ ہوا۔۔۔۔۔۔
” کیا مصیبت ہے۔۔۔۔۔”
خفگی سے بڑبڑاتے وہ اٹھ بیٹھا۔۔۔۔۔شرٹ لیس ہونے کی وجہ سے مضبوط سینا اور مسلز واضح تھے۔۔۔۔۔سینے پر بچھا ٹیٹو کا جال بھی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔۔۔۔سفید چمکتی رنگت،تیکھے نقوش،سیاہ خوابناک آنکھیں،مغرور کھڑی ناک، اور عنابی لب وہ مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا۔۔۔۔اور اپنی اس خوبصورتی کا اسے مکمل ادارک بھی تھا۔۔۔۔تبھی تو اسکا غرور آسمان کو چھوتا تھا۔۔۔۔۔۔
سر جھٹک کر وہ کھڑا ہوا تو اسکا چھ فٹ سے نکلتا قد واضح ہوا۔۔۔۔۔چوڑی بلٹ کچھ بھی نظرانداز کیا جانے والا نا تھا۔۔۔۔اپنے ہیڈک کی وجہ سے وہ بےزار ہوتا جلدی سے واشروم کی طرف بڑھا۔۔۔ شاور لے سکے تاکہ کچھ حواس ٹھکانے آئیں۔۔۔۔رات زیادہ پینے کی وجہ سے اب اسکا سر لٹو کی مانند گھوم رہا تھا۔۔۔۔جسنے اسے مزید غصہ دلایا۔۔۔۔۔
15 منٹ بعد وہ تولیے سے سر پونچھتا باہر آیا۔۔۔۔۔انٹرکام پر ملازمہ کو لیمن جوس لانے کا کہہ کر وہ الماری کی طرف بڑھا تاکہ شرٹ پہن سکے۔۔۔۔یونی جانے کا ارادہ کینسل کرتے اسنے آگے بڑھ کر ایل ای ڈی آن کی اور صوفے پر ڈھے گیا۔۔۔۔۔
” کم ان۔۔۔۔۔۔”
دستک پر بھاری آواز میں اجازت دی جس پر ملازمہ کھانے کی ٹرے اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔۔۔۔میز پر ناشتے کا سامان سیٹ کرکے وہ جس خاموشی سے آئی تھی اسی خاموشی سے چلی گئی۔۔۔۔کیونکہ جانتی تھی ” اسامہ ابراہیم ” کو بے جا مداخلت سخت ناپسند تھی۔۔۔۔کچھ اسکی جنونی کیفیت سے تمام ملازم خائف رہتے تھے۔۔۔۔۔تبھی کوئی بھی اسکی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا تھا۔۔۔صرف عصرہ بیگم محبت سے مجبور ہو کر یہ گستاخی سر انجام دیتیں تو پورا ابراہیم پیلس اسکے عتاب کے زیر اثر آ جاتا تھا۔۔۔۔۔۔
یہ تو سب جانتے تھے ” اسامہ ابراہیم ” کو اپنی ماں ” عصرہ ابراہیم ” سے سخت نفرت تھی۔۔۔۔۔وجہ سے کوئی بھی واقف نہیں تھا۔۔۔۔۔۔لیکن اس نفرت نے اگر عصرہ بیگم کو اذیت پہنچائی تھی تو ” اسامہ ابراہیم ” ان سے بڑھ کر اذیت کی بھٹی میں سلگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔مگر اسنے آج تک اپنی تکلیف کا احساس اپنے سائے کو نہیں ہونے دیا تھا۔۔۔۔وہ دوسروں کے لیے بے حس تھا مگر اندر وہ سہما 10 سال کا بچا تھا جسے اپنی ماں سے جنون کی حد تک محبت تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقت کی گرد نے اگر اس محبت پر مٹی ڈالی بھی تھی تو بھی اس میں کچھ چنگاریاں باقی تھیں۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *