Raag E Jaan Se Kareeb Tar By Farwa Khalid

“خوش آمدید حاعفہ، آخر تم میری دسترس میں آہی گئی۔ پہلے بتاتی تمہاری یہ اوقات ہے،

تو بہت پہلے تمہیں پیسوں سے خرید لیتا، یہ کام تو کبھی میرے لیے مشکل نہیں تھا۔”

وہ شخص بنا رُخ اُس کی جانب موڑے بولی جارہا تھا۔ جبکہ حاعفہ اِس جانے پہچانے لب و لہجے پر اپنی

جگہ گنگ کھڑی تھی۔ جس شخص کا سامنا کرنے سے پہلے وہ موت کو گلے لگانا پسند کرتی،

اُس کے یہاں ہونے کا تصور اُس کے وجود سے جان نکال گیا تھا۔ اُس کے دل نے شدت سے

خواہش کی تھی۔ کاش یہ اُس کا وہم ہو، نہیں وہ شخص بھلا یہاں کیسے ہوسکتا تھا۔

”کک۔۔۔۔کون۔۔۔؟“

یہ لفظ ادا کرتے اُس کی زبان ہکلا گئی تھی۔

مگر جیسے ہی اُس شخص نے اپنی جگہ سے اُٹھ کر رُخ اُس کی جانب موڑا۔ حاعفہ کی

نگاہوں میں پورا کمرا گھوم گیا تھا۔ اُس کے لیے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا مشکل ہوگیا تھا۔

“کیا ہوا یقین نہیں آرہا مجھے زندہ دیکھ۔۔۔۔۔تمہارے مطابق تو مر چکا ہونگا نا میں۔۔۔۔۔؟”

اُس شخص کی سرد منجمند کرتی آواز حاعفہ کے کانوں سے ٹکراتی اُس کا رنگ فق کر گئی تھی۔

وہ اِس وقت سیاہ کلف لگے لباس میں کندھوں پر ڈارک براؤن شال ڈالے اپنی سحر انگیز شاندار

پرسنیلٹی کے ساتھ اُسے لہو رنگ انتقامی نظروں سے سر سے لے کر پیر تک دیکھتا زمین میں گاڑھ گیا تھا۔

”اِس سے پہلے کتنوں کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔“

حاعفہ کی نم آنکھیں اُوپر اُٹھانے پر وہ اپنا جملہ ادھورا چھوڑ گیا تھا۔ مگر

وہ ادھوارا جملہ بھی اتنا نوکیلا تھا کہ حاعفہ کو اپنا دل لہولہان ہوتا محسوس ہوا تھا۔

”کیا ہوا ایک طوائف زادی سے اِس کے علاوہ اور کیا سوال کرسکتا ہوں میں۔۔۔۔۔۔؟“

زہر خند لہجے میں بولتا وہ اُس کے بہت پاس آن پہنچا تھا۔ حاعفہ پتھر بنی اپنی جگہ پر جم چکی تھی۔

مگر اگلے ہی لمحے اُس آگ اُگلتے شخص کی جارحانہ کاروائی پر حائفہ کی آنکھ سے

آنسو نکلتے بے مول ہوئے تھے۔ جن کی اب مقابل کے آگے کوئی قیمت نہیں تھی۔

اُس نے حاعفہ کی کلائی موڑ کے کمر سے لگائی تھی۔ اُسے اپنی کلائی ٹوٹتی محسوس ہوئی تھی۔

مگر وہ کچھ بھی بول کر اِس بپھرے زخمی شیر کے غصے کو مزید ہوا نہیں دینا چاہتی تھی۔

”کیوں کیا میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکا۔۔۔۔۔صرف پیسوں کے لیے؟؟؟۔۔۔۔۔۔تم ایک بار بولتی میں دنیا کی

ہر چیز تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دیتا، مگر تم نے تو مجھے انسان سے وحشی بنا کر

وہ نقصان کیا ہے، جس کی کبھی بھرپائی نہیں ہوسکے گی۔۔۔۔۔“

اُس نے اپنی بات ختم کرتے حاعفہ کو کسی اچھوت شے کی طرح دھکا مارتے دور پھینکا تھا۔

اُس کے اتنے ناروان سلوک کے باوجود حاعفہ کے منہ سے زرا سی آواز تک نہیں نکلی تھی۔

ابھی یہ تو کچھ بھی نہیں تھا۔ اِس شخص کی قہر برساتی نگاہیں بتا رہی تھیں

کہ جو کچھ وہ اِس کے ساتھ کرچکی تھی، اُس کی سزا بہت اذیت ناک ہونے والی تھی۔

@@@@@@@@

Download Link

Direct Download

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *