- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Mujhe Pyar Bhara Badal Kar Do by Aan Fatima
Genre : Police Hero | Innocent Heroin | Revenge Base | Romantic novel | Rude Hero Base
“لالہ آپ کو کچھ چاہیے کیا۔”
نورے اس کی گہری نگاہوں کے ارتکاز پہ گھبرا کر گویا ہوئی مگر وہ ہنوز اسے گھور رہا تھا۔
وہ اس کی عجیب سی نگاہوں سے گھبراتے خود پہ پھیلا ہوا ڈوپٹہ مزید درست کرنے لگی۔
اس کی نگاہیں نورے کو اپنے اندر تک اترتی محسوس ہوئی۔حورے کا منہ دوسری جانب تھا تبھی وہ دیکھ نا پائی۔
“حورے جاؤ تمہیں چاچی سائیں بلارہی ہیں۔”
اس کی تحکم بھری بھاری آواز پہ حورے اثبات میں سر ہلاتے بھاگنے والے انداز میں باہر کی جانب بڑھی تھی۔
اس کی اچانک بات پہ نورے کے حلق میں کانٹے سے چبھنے لگے۔اس نے خوفزدہ ہرنی کی مانند نگاہوں سے اسے اپنی جانب آتا دیکھا۔
“لالہ آپ۔”
اس سے پہلے کہ وہ ناسمجھی سے کچھ بولتی فرزام نے بروقت اس کے گلابی لبوں پہ اپنی بھاری انگلی
رکھتے پرشوق نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا جس کی سانولی رنگت میں سرخیاں سی گھل گئی تھی۔
“شش!آج سے نو مور فرزام لالہ نورے۔صرف فرزام سائیں۔”
وہ ذومعنی انداز میں بولتے اسے بہت کچھ جتاگیا۔نورے کا دل کسی پتے کی مانند لزرنے لگا۔
سپید پڑتے چہرے سمیت اس کی آنکھیں اس کی بات پہ پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔
“آپ یہ مجھ سے کیسی باتیں کررہے ہیں۔آج سے پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔”
وہ تڑپ کر بھیگے لہجے میں بولی تو اس کی آنکھوں کا بھیگا پن دیکھتے وہ ہولے سے مسکرایا۔
وہ اس سے خوفزدہ تھی اور یہی چیز اسے لطف میں مبتلا کررہی تھی۔وہ دو قدم مزید آگے
بڑھتے رہا سہا فاصلہ بھی سمیٹ گیا۔نورے کی آنکھوں کے سامنے بےساختہ اندھیرا سا چھایا۔
“کیونکہ آج سے پہلے میں نے تمہارے بارے میں ایسا کبھی سوچا نہیں تھا اب جب سوچ رہا ہوں
تو تمہیں ٹوک دیا اسی لیے خاموشی سے یہ ٹسوے بہانا بند کرو اور اپنے پیارے پیارے ہاتھوں سے
میرے لیے جلدی سے پراٹھا بناؤ بلکل اس دن جیسا۔”وہ اس کے گال پہ گرنے والا
آنسو پونچھتے مزے سے بولتے اس سے فاصلہ قائم کرگیا کیونکہ اب وہ بری طرح رونے میں مصروف تھی۔
“میں سب کو بتادوں گی کہ فرزام لا۔”
وہ غصے سے پھولی ناک سمیت روتے ہوئے دھیمے لہجے میں چیخی مگر اس کی سرد نگاہیں
خود پہ محسوس کر وہ اندر تک سہمتے اپنے لبوں کو آپس میں باہم ملاگئی
۔فرزام اس کے یوں خوفزدہ ہونے پہ داد دیتی نگاہوں سے اسے دیکھتے دلکشی سے مسکرایا۔
“لوگ دیدارِ یار مانگتے ہیں محبت میں مگر ہم دیدارِ یار کے ساتھ اس کے نرم ہاتھوں سے بنا کھانا بھی
مانگتے ہیں وہ کیا ہے نا اسی چیز نے ہی تو ہمارا دل چڑایا ہے۔اب دل چڑانے کی
سزا یہی ہے کہ آپ مابدولت کی زندگی میں ہمیشہ کیلیے شامل ہوتے ہمیں لذیذ کھانوں سے روشناس کرائیے۔”