- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Dill Tere Sang Jor Liya By Huria Malik
Genre : Rude Hero | Kidnapping based | Haveli based | Wadera based | Age difference based | 2nd Marriage based | Noke joke | Twins brother | Multiple couple | Forced marriage | Friendship based | University based | Teacher student based | Happy Ending
Download Link
فار گاڈ سیک بابا جان!آپ کیسے مجھے اس رشتے کے لیے فورس کر سکتے ہیں جبکہ
آپ جانتے ہیں کہ میں کمیٹڈ ہوں۔” اسد صاحب کا غیرمتوقع حکم اس پہ کسی چابک کی طرح لگا تھا۔
اور اس چابک کی ضرب اتنی شدید تھی کہ وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا انتہائی بلند آواز
اور تلخ لہجے میں بولا تو سب نے ہی دہل کے اس کے غضبناک تاثرات ملاحظہ کیے۔
“میں تمہیں اس کمٹمنٹ کو ختم کرنے کے لیے نہیں کہہ رہا بل۔۔۔۔۔” اس کے بے لچک و اکھڑ
تاثرات دیکھتے ہوئے اسد صاحب نے اسے نرمی سے ہینڈل کرنا چاہا۔
جبکہ وسیع و عریض ہال میں پڑے قیمتی و دیدہ زیب صوفوں پہ بیٹھے
نفوس خاموش تماشائی بنے ان باپ بیٹا کو دیکھ رہے تھے۔
“میں آپ کے کہنے پہ یہ کمٹمنٹ ختم بھی نہیں کرنے والا ہوں۔” اس کے نخوت سے
کہنے پہ جہاں وہاں موجود چند ایک نفوس کے ہونٹوں پہ دبی دبی مسکراہٹ پھیل گئی جبکہ اسد صاحب کا چہرہ سرخ پڑا۔
“بات کو گھماو مت، میں تمہیں صرف نکاح کے لیے کہہ رہا ہوں۔” انہوں نے اب کے
سنجیدگی سے اس کی جانب دیکھا جو ایک اتھڑے بے لگام گھوڑے کی مانند لگ رہا تھا جسے نکیل ڈالنے والا فی الحال کوئی نہ تھا۔
“میرا نکاح ہو چکا ہے بابا جان!” وہ چبھتے ہوئے لہجے میں بولا
جبکہ سلگتی ہوئی آنکھیں ان کے سرخ چہرے پہ گڑھی ہوئی تھیں۔
“ضرغام ملک!مرد کو چار نکاح کرنے کی اجازت ہے۔” انہوں نے اس کے مقابل آتے
ہوئے سنجیدگی سے کہا تو اس نے زور سے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچیں۔
“لیکن میرے لیے ایک نکاح کافی ہے۔۔۔۔” اس کی تلخ آواز کو ایاز صاحب نے قطع کیا۔
“آج یوں دامن چھڑانے سے قبل سے تمہیں کل ایکشن لیتے ہوئے سوچنا چاہیے تھا۔”
انہوں نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا لیکن بے سود ٹھہرا۔
“مجھے علم ہوتا کہ میرے ‘ہمدردانہ’ عمل سے آپ کی شان و شوکت کے لیے مسئلہ کھڑا
ہو گا اور وہ مسئلہ آپ میرے لیے مسئلہء کشمیر بنانے والے ہیں تو میں انہیں مرنے دیتا وہیں۔”
وہ اس وقت اس ذہنی کشیدگی کا شکار ہوتا سخت بے رحم اور نخوت زدہ لہجے میں بولتا سب کے دل دہلا گیا۔
“ضرغام بھولو مت کہ تم کس کے متعلق بات کر رہے ہو۔” اسد صاحب اس کے بے رحم الفاظ پہ
مشتعل ہوتے قدرے بلند آواز میں بولے تو وہ ایک قدم اٹھاتا ہوا ان کے سامنے کھڑا ہوتا لفظ چبا چبا کے بولا۔
“یہ بات میں ہر گز نہیں بھول رہا لیکن آپ شاید یہ بات فراموش کر چکے ہیں
کہ جس سے آپ میرے دوسرے ‘نکاح’ پہ زور دے رہے ہیں وہ ناصرف مجھ سے
عمر میں چھوٹی ہیں بلکہ بھتیجی لگتی ہیں میری۔” اس کے چبھتے ہوئے لہجے پہ لحظہ بھر کے لیے خاموشی چھا گئی۔