Ehd E Ulfat By Mehwish Ali

Romantic Novel | Fedual base | Forced Marriage | Rude Hero | Complete Novel

کہاں لے جارہے ہیں آپ سائیں “؟؟ وہ دونوں نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تھے کہ صائم اسے کچھ بھی کہے بغیر ہاتھ پکڑ کر گھر کو لاک کرتا باہر لے آیا اور اب موڑ مڑ کر گھر کی بیک سائیڈ پہ لے جارہا تھا ۔
تقویٰ کے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا نا ہی وہ کچھ منہ سے بول رہا تھا تو وہ خاموش ہوکر اسکے ساتھ چلنے لگی ۔
اچانک وہ رکا اور اسکی طرف پلٹا کہ تقویٰ اسکے رکنے پر اسکے سینے سے ٹکرا جاتی کہ ۔
صائم بروقت اسکے سر کو تھامتا تکلیف سے بچا گیا ۔ وہ نہیں چاہتا تھا اسکی تقویٰ کو ذرا سی بھی تکلیف ملے اسلئے وہ اسے بجاگیا ۔
صائم نے مسکراتے اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنے سامنے کیا ۔
“ایک پری کو پرستان لیکر جارہا ہوں “! وہ اسے لیکر آگے بڑھا اور روڈ کراس کرتے لمبے درختوں کے جھنڈ سے نکل کر اپنی منزل پر رکا ۔
آس پاس گھنے درختوں کی وجہ سے گہرا اندھیرا تھا صرف سامنے ہی چاند کی روشنی میں خوبصورت منظر روشن تھا ۔
اسے نہیں لگتا تھا کہ کوئی یہاں آیا بھی ہوگا ۔
یہ تو مغرب کی نماز پڑھ کر جب اسے ہی بیک سائیڈ نکل آیا تو درختوں کے اس پار دیکھنے کے تجسس اور دل کیا تو خدا نے اسے اپنا حسن دیکھا دیا ۔ جو اسکی تقویٰ کے لبوں پر مسکراہٹ لانے کیلئے کافی تھا ۔
“میں جب کہوں تب آنکھیں کھولنا “۔ وہ جھک کر اسکے کان میں سرگوشی کرتا بولا اور آنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر اسکی نازک کمر کے گرد باندھ لئے اور اسکے شانے پر اپنی ٹھوڑی ٹکا دی ۔
وہ بالکل درختوں کے بیچ کھڑے تھے تاریکی میں کہ آس پاس کے گھروں کی بالکونی سے چھپے ہوئے تھے ۔
“اوپن یور بیوٹیفل آئیز “۔ صائم نے اسکی گردن پر لب رکھتے گھمبیر سرگوشی میں کہا وہ لرزتی پلکوں سے سمٹ کر آنکھیں کھولتی سامنے دیکھنے لگی کہ اسکا دل دھڑک اٹھا اور منہ سے بےساختہ “ماشاءاللہ ” نکلا ۔
سامنے ہی نیلے پانی والی جھیل پہاڑوں اور درختوں کے بیچ کچھ ہی فاصلے پر چاند کی روشنی میں اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ اسے واقعی پرستان کا منظر لگا ۔
انکے آس پاس درختوں پر جگنوں اڑ رہے تھے اور بےیقینی سے دیکھتی اس منظر کو اپنے گرد بندھے صائم کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ گئی ۔
“سائیں یہ حقیقت ہے “؟؟ وہ اسکے حصار سے نکلتی مڑ کر اسے دیکھنے لگی اور پھر گھنے درختوں پر اڑتے جگنوں کو ۔
جھیل سے اٹھتی ہوا کی ٹھنڈی لہریں دونوں کے وجود سے ٹکرا رہی تھی اور تقویٰ بےیقینی کے عالم میں کھڑی صائم کو دیکھ رہی تھی ۔صائم نے مسکراتے اسکے چہرے کو تھاما اور بلند کرے اسکے گال پر لب رکھتے آہستہ سے بولا “یس سائیں کی جان “۔
وہ اسکی قربت میں گہرا سانس بھرتی دور ہوئی اور آگے بڑھنے لگی جھیل کے قریب جانا چاہتی تھی کہ صائم نے اسکا ہاتھ پکڑلیا ۔

 

Download Link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *