Walliam Wali Episode 04 Part 01
Writer Noor Rajput
اس ناول کے جملہ حقوق بحقِ مصنفہ اور ناولستان – اردو ناولز لائبریری کے پاس محفوظ ہیں۔
کسی بھی دوسری ویب سائٹ، گروپ، یا پیج پر اس ناول کو بغیر اجازت کے پوسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔
اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے اس مواد کو چوری کر کے پوسٹ کرے گا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ۔
ہم تمام صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کا احترام کریں
اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے اجتناب کریں۔
“William Wali” unfolds the story of a rebellious girl driven by passion,
battling for love, faith, and justice.
A gripping tale of revenge, unveiling the harsh truths of society,
with a bold protagonist who defies norms.
Packed with thrilling twists, buried secrets from the past,
enigmatic characters, and a captivating connection to a foreign man,
this story promises an unforgettable journey through mystery, suspense, and raw emotions.
Sneak Peak
مسٹر جوزف اپنی لمبی چمچاتی گاڑی میں اسکول پہنچے۔ اسکول کے مرکزی گیٹ سے پرنسپل کے آفس تک آتے جانے کتنی نگاہوں نے انہیں رشک سے دیکھا۔
سوٹڈ بوٹڈ چمچماتے جوتے پہنے انکی شخصیت نمایاں تھی اور اس وقت وہ پرنسپل کے آفس میں موجود تھے۔
جارج اور ولیم ان کے ساتھ تھے جبکہ دوسرے لڑکا اور اسکے والدین بھی آفس میں تھے۔ مسٹر جوزف کی شخصیت ایسی تھی کہ پرنسپل ان سے مرعوب نظر آتے تھے۔
”تم کیوں آئے بیچ میں؟؟“ جارج نے ولیم کے کان میں سرگوشی کی۔ اس کا ہونٹ پھٹا ہوا تھا جبکہ دوسرے لڑکے ماتھے پر گومڑ بن چکا تھا۔
”تم نے جھگڑا شروع کیوں کیا؟؟“ ولیم نے اسی انداز میں الٹا سوال کیا۔
”اس نے تمہیں پاگل کہا میں کیسے چپ رہتا؟؟“ وہ دونوں کھا جانے والی نظروں سے سامنے بیٹھے اس لڑکے کو دیکھ رہے تھے اور لڑکے کے تاثرات بھی کچھ مختلف نہ تھے۔
”وہ تمہیں مار رہا تھا میں کیسے پیچھے رہتا؟؟“ انکی کھسر پسھر کی آوازی بھن بھن کرنے لگیں جبکہ مسٹر جوزف خاموش ہی رہے۔ وہ گہری نگاہوں سے صورتحال کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
”مسٹر جوزف آپ کو بتانا چاہیے تھا کہ آپکا بیٹا ذہنی طور پر ابنارمل ہے۔“ پرنسپل برہم لگ رہی تھی۔
”اور آپ سے یہ کس نے کہا؟؟“ ٹھنڈہ ٹھار لہجہ۔
”میں اسی ہسپتال میں سینئر نرس ہوں جہاں آپ اپنے بیٹے کو سیشن کے لیے لاتے رہے ہیں اور ہمیں تو یہ سمجھ نہیں آتا پرنسپل کہ آپ نے ایسے بچے کو داخلہ کیسے دیا؟“
توپوں کا رخ اب پرنسپل کی طرف تھا۔
”مسٹر جوزف آپ کچھ کہیں گے؟؟“ پرنپسل اب مسٹر جوزف سے استفسار کرنے لگیں۔ ان پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں تھا۔
”آپ ابھی بھی ان سے پوچھ رہی ہیں؟؟ آپ کو نارمل بچوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے؟؟ اگر میرے بیٹے کو کچھ ہو جاتا تو۔۔؟؟“ وہ دونوں میاں بیوی بھڑکے ہوئے تھے۔
”دیکھیں اسکول کے اصولوں کے مطابق آپ کو بچے کی میڈیکل رپورٹ جمع کروانی ہوتی ہے یہ ضروری ہے۔“ مسٹر جوزف کی خاموشی پرنسپل کو کھٹک رہی تھی۔ جبکہ جارج اب اس لڑکے کو دیکھ رہا تھا جو تمسخرانہ مسکراہٹ اچھال رہا تھا۔ جارج نے داہنا ہاتھ اٹھا کر سیدھا کیا اور گردن پر پھیرا۔ وہ اسکا پتا کٹ جانے کا اشارہ کر رہا تھا جبکہ دوسرا لڑکا اب نخوت سے منہ موڑ گیا۔ دونوں اچھی خاصی چوٹ کھانے کے بعد بھی سکون سے نہیں بیٹھ رہے تھے۔
”میڈیکل رپورٹ میں ہسپتال سے لا کر دوں گی آپ برائے مہربانی ایسے بچے کو فوراً اسکول سے نکالیں۔اگر کل کو اس نے کسی کی جان لے لی تو پھر؟؟“ اشارہ ولیم کی طرف تھا۔
”اگر رپورٹ سے یہ ثابت ہوا کہ ولیم کا ذہنی توازن درست نہیں ہے تو ہمیں معذرت ہمیں سخت کاروائی کرنی ہوگی۔“ پرنسپل نے مسٹر جوزف سے کہا۔
”اور رپورٹ کلیئر ہوئی تو؟؟“ سرد سپاٹ تاثرات سے پوچھا گیا پرنسپل کے ساتھ ساتھ دوسرے لڑکے کے ماں باپ نے چونک کر مسٹر ولیم کو دیکھا۔
”تو اسکا فیصلہ جیوری فیصلہ کرے گی۔“ پرنسپل نے سنبھلتے جواب دیا۔
”ہرگز نہیں! آپ لوگ مجھ پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔ جوزف پیٹرسن پر۔“ انہوں نے شہادت کی انگلی سے اپنے سینے پر دستک دی۔ چہرہ سپاٹ تھا جبکہ آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں۔
”یہ میری بدنامی ہے میں اسے ایسے ہی نہیں جانے دوں گا۔ اگر رپورٹس کلیئر ہوئیں تو ایسے بچے کو اسکول سے نکالا جائے گا جو دوسرے بچوں پر الزام لگائے انکی شخصیت کو داغدار کرے۔ منظور ہے؟؟“ انہوں نے کھلے عام للکارانہ لہجے میں کہا۔ پرنسپل نےساختہ دوسرے لڑکے کے والدین کی جانب دیکھا وہ پل بھر کو گھبرا گئے لیکن لڑکے کی ماں کو پورا بھروسہ بےتھا۔
”ہمیں منظور ہے۔“ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتی وہ فوراً بولی ایک سفاکانہ سی مسکان مسٹر جوزف کے لبوں پر دوڑ گئی۔
ہسپتال فون کرکے رپورٹ منگوا لی گئی تھی اور ایک گھنٹے بعد جیوری فیصلہ سنا چکی تھی۔
ولیم کی رپورٹ کلیئر تھی۔ اسکا سالوں سے چلتا علاج کامیاب رہا تھا وہ اب نارمل تھا۔ بالکل باقی بچوں کی طرح۔
دوسرے لڑکے کو اسکول سے نکالنے کا حکم دیا گیا۔
لڑکے کے والدین تو صدمے میں چلے گئے۔
”آپ لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔ پرنسپل صاحبہ ہماری بات سنیں۔“ لڑکے کے والدین پرنسپل کے پیچھے لپکے۔ انہوں نے اپنی پوری کمائی لگا کر اپنے بیٹے کو اس سکول میں داخل کروایا تھا۔
”مجھ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ آپ لوگوں کا فیصلہ تھا جو بات کرنی ہے مسٹر جوزف سے کریں۔۔“ پرنسپل نے اپنے آفس میں داخل ہوتے دروازہ انکے منہ پر بند کردیا جبکہ وہ دونوں میاں بیوی حواس باختہ مسٹر جوزف کی جانب بڑھے۔ وہ جارج اور ولیم کو گھر لے جا رہے تھے۔ آج کے لیے اتنا کافی تھا۔ جارج کے ہونٹ پر مرہم پٹی کردی گئی تھی۔
”مسٹر جوزف مسٹر جوزف! پلیز ہماری بات سنیں۔۔“ وہ لپک کر انکے راستے میں حائل ہوئے۔ مسٹر جوزف کی بھنویں سکڑ گئیں۔ انکے بیٹے کو اسکول سے نکالا گیا تھا یہ چھوٹی بات نہیں تھی۔
”ہم معافی مانگتے ہیں اپنے اور اپنے بیٹے کی طرف سے پلیز ہمیں معاف کردیں۔۔“ وہ ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔
”ہمارے بیٹے کو اسکول سے نکالنے کا فیصلہ واپس لے لیں وہ کبھی آپکے بیٹوں کو تنگ نہیں کرے گا۔ خدا کا واسطہ ہے۔“
اسٹوڈنٹس ٹیچرز کلاس کی کھڑکیوں سے جھانکنے لگے۔ ہر سو سناٹا تھا۔
”جوزف پیٹرسن سب معاف کر سکتا ہے لیکن عزت پر انگلی اٹھانے والے کو نہیں۔“ اپنی جانب اٹھنے والی انگلی کو وہ بازو سمیت دھڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے روادار تھے۔
”رحم کریں خدا کا واسطہ ہے۔“ نسوانی آہ و پکار گونجتی رہی لیکن کسی کو وہاں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ مسٹر جوزف اپنے ساتھ جارج اور ولیم کو لے کر جا چکے تھے۔
✿••✿••✿••✿