- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Novel: Ishq e Zar
Writer: Zaroon Ali
Genre: Sudden Marriage | Class Difference Based | Cancer Survival | College Life | Family Drama | Multi Couples | Happy ending Based | Romantic Fiction | University Life | New Beginnings | Innocence | Humorous Encounters | Love Story | Pakistani Literature | Friendship | Young Adults | Cultural Values | Self-Discovery | Academic Challenges | First Love | Personal Growth | Relationships | Emotional Journey | Heartfelt Moments | Family Dynamics | Social Expectations |
Click here to Download Novel
Download Link
Read Online
”میں نے بابا سے کہا بھی تھا کہ میرے ساتھ چلیں،
مجھے نہ تو یہاں راستوں کا پتا ہے اور نہ ہی میں کسی کو جانتی ہوں
جو میری مدد کر دے پر بابا کو بھی آج ہی سارے کام یاد آنے تھے
اور رضا اُسے تو میں کبھی معاف نہیں کروں گی“
،سرخ ہوتی ناک کو ایک بار پھر سے دوپٹے سے رگڑتے اُس نے خود کلامی کی اور خود کو سنبھالتے ہوئے
ایک بار پھر سے کسی ایسے انسان کی تلاش میں نظر دوڑائی جو پہلے والے دو نمونوں کی طرح نہ ہو۔
”ہاں یہ کچھ اچھا لگ رہا ہے، شکل بھی اچھی ہے بلکہ کافی پیارا ہے“،ا
یک سائیڈ پہ بیٹھے لڑکے کی طرف نظر پڑتے ہی
نور نے جلدی سے اپنا چہرہ صاف کیا اور اپنا بیگ اور کتابیں اُٹھائے
اُس کے قریب آئی جو اپنی ہی دنیا میں مگن کتاب کھولے کچھ پڑھ رہا تھا۔
”ایکسکیوزمی بھائی“،اُس کے قریب رک کر نور نے ایک بار پھر سے اپنی ناک کو رگڑا
تو مقابل نے کسی انجان آواز پر سر اُٹھاتے اُس کے تعاقب میں دیکھا۔
”پلیز آپ میری مدد کردیں گے؟“اپنی بھوری آنکھوں سے مقابل کی کالی خوبصورت آنکھوں میں جھانکتے ہوئے
نور نے دنیا جہاں کی معصومیت اپنے چہرے پر سجائی تو زارون نے اُس کا سر تا پاؤں جائزہ لیا
جو پنک کلر کی گھٹنوں تک آتی فراک کے ساتھ سفید ٹراؤزر پہنے، اُسی رنگ کے دوپٹے کے ساتھ
حجاب کی طرح لیے گئے دوپٹے میں میک اپ سے عاری چہرہ لیے اُسے سب سے مختلف اور پاکیزہ لگی۔
”بھائی کیا ہوا؟ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟“اُسے اپنی طرف دیکھتا پا کر نور کو بُرا لگ
تب ہی اُس کی آنکھوں کے آگے ہاتھ لہراتے اُسے اپنی جانب متوجہ کیا جو جلدی سے نظریں ہٹاتے نفی میں سر ہلا گیا۔
”کچھ نہیں، کیسی مدد چاہیے آپ کو؟“کتاب بیگ میں رکھ کر اُس نے اُس کی طرف دیکھنے سے مکمل اجتناب کیا۔
”وہ مجھے کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کا پوچھنا تھا وہ ایکچویلی ہم اسلام آباد میں نئے شفٹ ہوئے ہیں
جس کی وجہ سے میں یہاں کسی کو نہیں جانتی اور کوئی مجھے ٹھیک سے راستہ بتا بھی نہیں رہا
تو پلیز آپ مجھے بتا دیں بلکہ آپ مجھے چھوڑ آئیں۔ وہ کیا ہے نا بابا کہتے ہیں میں معصوم ہوں
اور لوگ مجھے آسانی سے بےوقوف بنا دیتے ہیں اس لیے میں چاہتی ہوں کہ کوئی میری معصومیت کا فائدہ اُٹھاتے
مجھے تنگ نہ کرے“،اُس کے نرمی سے بات کرتے ہی نور نے نان اسٹاپ بولنا شروع کیا تو
زارون نے ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کرکے ایک بار پھر سے اُس لڑکی کی جانب دیکھا جو بس شکل سے ہی معصوم تھی۔
”ٹھیک ہے چلیں میں چھوڑ دیتا ہوں“،اپنا بیگ اُٹھاتے اُس نے اُس کے مزید
کچھ بولنے سے پہلے ہی کہا اور خاموشی سے یونیورسٹی کے دائیں حصے کی جانب چلنے لگا۔
”شکریہ، آپ کو دیکھتے ہی میں سمجھ گئی تھی کہ آپ ایک اچھے انسان ہیں
اور میری مدد ضرور کریں گے“،اُس کے ساتھ چلتے نور نے خوش دلی سے کہا تو
زارون نے بس سر ہلانے پر اکتفا کیا اور پھر سے خاموشی اختیار کرتے اُس سے دو قدم آگے چلنے لگا۔
”بھائی آپ گونگے ہیں کیا؟؟“ابھی اُسے چلتے بامشکل ایک ہی منٹ گزرا تھا
جب نور نے پھر سے سوال کیا جس پر رکتے زارون نے اُسے حیرت سے پلٹ کر دیکھا
جو پلکیں جھپکتے اپنے جواب کی منتظر تھی۔
”جی گونگا ہی ہوں بس ضرورت پڑنے پہ کبھی کبھار بول لیتا ہوں“،
اُسی کے انداز میں جواب دیتے وہ پھر سے چلنے لگا۔
”ٹھیک ہے، مطلب مجھ سے تھوڑا تھوڑا بول لیں گے آپ؟ ویسے کیا میں آپ کا نام پوچھ سکتی ہوں؟“
آنکھوں میں تجسّس لیے اُس نے زارون کو پھر سے سیریس دیکھ کر پوچھا۔
”زارون علی“،تیز تیز قدم اُٹھاتے اُس نے مختصر سا جواب دیا۔
”اچھا نام ہے پر میں آپ کو زار کہوں گی کیونکہ اتنا لمبا نام مجھ سے نہیں بولا جاتا“،
نور نے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا تو زارون نے جواب دینے کے بجائے سر جھکائے چلنے پر اکتفا کیا۔
”ویسے میرا نام نور حرم ہے اور سب پیار سے مجھے نور کہتے ہیں اور اب آپ بھی کہہ سکتے ہیں“،
بات کرتے کرتے وہ ایک لڑکا لڑکی کو ساتھ تصویریں بناتے دیکھ کر رکی۔
”پلیز آپ جلدی چلیں گی مجھے دیر ہو رہی ہے“،اُس کی آواز آنا بند ہوئی تو
زارون نے تھوڑی دور جاکر پلٹ کر دیکھا تو وہ پیچھے ہی کھڑی
دلچسپی سے اُس جوڑے کو دیکھنے میں مصروف تھی۔
”جی جی چل رہی ہوں“،اُس کی آواز پر ہوش میں آتے اُس نے سر ہلایا
اور پھر سے اُس کے ساتھ چلنے لگی جو اپنی بات ختم کرتے پھر سے تیز تیز قدم اُٹھانے لگا۔
”زار بھائی پلیز آہستہ چلیں مجھ سے اتنی تیز نہیں چلا جاتا“،
نور نے اُس کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش میں ناکام ہوتے کہا تو زارون نے اپنی رفتار آہستہ کی۔
”آپ کو پتا ہے؟؟“اُس کی رفتار آہستہ ہوتے ہی نور نے ایک بار پھر سے باتوں کا سلسلہ شروع کیا۔
”نہیں“،زارون نے اُس آفت کو ایک نظر دیکھ کر نفی میں سر ہلایا جو اُس کی اپنی ہی خریدی ہوئی تھی۔
”مجھے مسکراتے ہوئے لوگ بہت پسند ہیں پر لگتا ہے آپ کم کم ہی مسکراتے ہیں
اس لحاظ سے ہماری دوستی نہیں ہو سکتی اس لیے آپ میری مدد کرنے کے بعد مجھے یہ مت کہیے گا
کہ مجھ سے دوستی کر لو یا اپنا نمبر دے دو“، کندھے اچکاتے اُس نے زارون کو پہلے ہی اپنی پسند سے آگاہ کیا۔
”مطلب، میں کیوں دوستی کروں گا آپ سے؟“اُس کی بات سنتے ہی زارون نے ایک دم سے رکتے حیران نظروں سے اُسے دیکھا۔
”وہ میری دوستیں کہتی ہیں کہ جو سیریس ہیرو ہوتے ہیں نا وہ معصوم لڑکیوں کو بہت جلدی پسند کر لیتے ہیں
اور پھر اُن سے شادی کر کے اپنا حکم چلاتے اور اُن پہ ظلم بھی کرتے اور میں نہیں چاہتی کہ
آپ مجھ سے دوستی کرنے کے بعد مجھ شادی کرلیں اور میں ساری زندگی آپ کے ظلم برداشت کرتی رہوں“،
نخرے سے کہتے اُس نے انگلی اُٹھاتے زارون کو وارن کیا جس نے حیرت سے پوری آنکھیں کھولے
اُس معصوم نظر آنے والی چڑیل کو دیکھا جو اتنی بڑی بات کتنی آسانی سے کہہ چکی تھی۔
”مجھے لگتا ہے آپ کو اپنی کلاس لینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے
جو آپ میرا اور اپنا دونوں کا وقت ضائع کر رہی ہیں“،
اُس کی نہ رکنے والی زبان کو دیکھتے زارون نے اندازہ لگایا اور واپسی کے لیے پلٹا۔
”سوری مجھے لگتا ہے میں کچھ زیادہ بول گئی ہوں پر اب نہیں بولوں گی“،
نور نے اُسے پلٹتا دیکھ کر جلدی سے اُس کے سامنے آتے معذرت کی
تو زارون نے اُسے آنکھیں دکھاتے رکنے کے بجائے آگے قدم بڑھائے۔
”آپ پہلے ہی میرا کافی وقت ضائع کر چکی ہیں اور
میں مزید آپ کی باتیں سننے کے موڈ میں نہیں ہوں
اس لیے پلیز مجھے معاف کریں“،باقاعدہ ہاتھ جوڑتے زارون نے تپے ہوئے انداز میں کہا
تو نور کی آنکھیں پانی سے بھر گئیں۔
”اب میں نہیں بولوں گی پلیز مجھے ڈیپارٹمنٹ تک چھوڑ آئیں“،سوں سوں کرتے اُس نے اپنے مقصد کے لیے
دو جھوٹے آنسو بہائے تو زارون نے لمبی سانس لیتے اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش کی۔
”ٹھیک ہے پر جلدی چلیں بالکل اپنی زبان کی طرح“،چہرے پر کسی قسم کا کوئی بھی تاثر لائے بغیر
اُس نے کہا تو نور نے بات سمجھنے کے بجائے اثبات میں سر ہلایا اور جلدی جلدی اُس کے پیچھے چلنے لگی۔
”یہ لیں آگیا آپ کا ڈیپارٹمنٹ“،کچھ منٹ بعد ایک عمارت کے سامنے رک کر
جو یونیورسٹی کے بالکل آخری حصے میں تھی زارون نے کہنے کے ساتھ اشارہ کیا۔
”شکریہ زار آپ بہت اچھے ہیں پر اب میں آپ کو بھائی نہیں کہوں گی کیونکہ
میری دوستیں کہتی ہیں کہ کسی لڑکے کو بھائی نہیں کہنا چاہیے
ہوسکتا ہے بعد میں اُس سے ہی آپ کی شادی ہو جائے
اور پلیز آپ کبھی کبھی ہنس لیا کریں اچھے لگیں گے“،اپنا مطلب نکلتے ہی
اُس نے ایک بار پھر سے بولنا شروع کیا تو زارون نے اکتائی ہوئی نظروں سے اُسے گھورا۔
”شٹ اپ کتنا بولتی ہیں آپ اور میں آپ جیسی چڑیل سے کیوں شادی کروں گا
کیا میرے لیے باقی دنیا کی لڑکیاں مر گئی ہیں
اور پلیز دوبارہ میرے سامنے مت آئیے گا کیونکہ یہ آپ کے ساتھ گزارے دس منٹ ہی میرے لیے کافی انمول ثابت ہوئے
اور میں مزید آپ جیسی قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبان والی لڑکی کو برداشت نہیں کر سکتا
جس کی وجہ سے میں اپنی کلاس سے لیٹ ہوچکا ہوں“،اُس کی بات سنتے ہی زارون نے لفظوں کو چباتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔
”ہاں ہاں مجھے بھی کوئی شوق نہیں آپ جیسے بدتمیز انسان کے منہ لگنے کا،
توبہ میں نے تھوڑی لفٹ کیا کروائی آپ تو میرے سر پہ چڑھ کے بولنے لگ گئے
اور ہاں پلیز جائیں جا کر اپنی کسی گرل فرینڈ کے ساتھ گھوم کے آئیں تاکہ آپ کا دماغ کچھ ٹھنڈا ہو۔
آئے بڑے مجھے ڈانٹنے والے“،ایک ہی سانس میں اپنا بدلہ لیتے
وہ زارون کو ہکا بکا کھڑا چھوڑ کر نوٹس بورڈ کی جانب بڑھی۔
”بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں، توبہ کتنی فضول اور بدتمیز لڑکی ہے“،
اپنے غصے پر قابو پاتے اُس نے خود کو مزید کچھ کہنے سے باز رکھا اور
اپنے ڈیپارٹمنٹ کا راستہ لیا جہاں پہنچتے ہی اُسے پتا چلا کہ سر بس حاضری لگا کر جا چکے ہیں۔
”سارا دن خراب کر دیا میرا اُس چڑیل نے“،سی آر کی بات سنتے ہی زارون کو نور پر مزید غصہ آیا
تب ہی اُس نے باقی کوئی بھی کلاس لینے کا ارادہ ترک کرتے اپنا رخ گھر کی جانب کیا
تاکہ کچھ دیر آرام کرے اور اپنے دماغ کو سکون دے سکے
جو صبح ہی صبح اُس لڑکی کی وجہ سے خراب ہو چکا تھا۔