- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Bhool Hue Hum Say Novel By Neelam Riasat
Forced Marriage | Family based | Cute Childrens talk | Playboy Hero | Funny novel | Friendship based | Happy Ending novel
چھ سال بعد وہ لوٹا تھا جب وہ اسکے جڑواں بچوں کی ماں بن چکی تھی جسے شادی کے اگلے دن ہی ” موٹی ” کے لقب سے نواز کر اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ ۔۔ اگر وہ اسے اتنی ناپسند تھی تو کیوں اس سے شادی کی اسے برباد کیا؟؟ اپنی رات حسین کر کے اسکے پیروں میں اولاد کی زنجیر ڈال کر چلا گیا۔۔ وہ جو اسی دن اسے طلاق دینے لگا تھا آج واپس کیوں لوٹا تھا؟؟ طلاق نا دینے کے لئے کتنی منتیں کی تھیں اسکے آگے آج جب وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہے اپنی اولاد پال رہی ہے۔۔۔۔ حسین دوشیزہ بن چکی ہے تو وہ کیوں واپس لوٹا ہے؟؟؟؟؟ اسے آج تک یاد ہے شادی کی وہ رات۔۔۔۔۔۔۔۔
” یہ بات آپ کو اب یاد آئی ہے۔۔۔۔ہے نا؟ شادی کرنے کے بعد۔۔۔۔ میرے باپ کا پیسہ لگوا دیا۔۔۔۔میرے ارمان جگا دیئے اور صاحب اب فرما رہے ہیں ہمارے درمیان کوئی تعلق نہیں بن سکتا تو کل پانچ سو لوگوں کے سامنے نکاح کرنے کا ڈرامہ کیا تھا۔۔۔۔؟”
“میں پھر سے کہوں گا بلکہ خبر دار کر رہا ہوں تمیز سے بات کرو ورنہ یہ گفتگو یہیں ختم ہو گی اور تم آج کے
آج ہی واپس اپنے گھر بھیج دی جاؤ گی۔۔۔۔۔”
کس بات کی وجہ۔۔۔۔۔ ؟”
” مجھے نا پسند کرنے کی وجہ۔۔۔۔؟”
نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کا لہجہ کپکپا گیا۔۔۔۔۔ آنسو بھر آئے جس پر اس نے نفرت سے آنکھیں رگڑیں۔۔۔۔۔۔
جس پر وہ تھوڑا نرم پڑتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
” تم بری لڑکی نہیں ہو مگر میں تمہیں اپنی بیوی کے طور پر دیکھ کر خوش نہیں ہوں۔۔۔۔”
” کیوں؟ مجھ میں کیا کمی ہے ؟ پڑھی لکھی ہوں، امیر ہوں، خوبصورت ہوں۔۔۔۔۔”
” پلیز.۔۔۔۔خدا کے لیے یوں نہ کرو مگر تم خود انصاف کرو۔۔ کہاں سے خوبصورت ہو؟؟ رنگ گورا ہونے کو خوبصورتی نہیں کہتے۔۔۔۔ خوبصورتی کے کچھ معیار ہیں۔۔۔۔ اب یہی دیکھ لو تمہارا تو لباس بھی عام پیمائش میں۔۔۔۔۔آنے والے سوٹ پیس میں نہیں بنتا ہو گا۔۔۔۔اتنی چھوٹی عمر میں اتنا وزن رکھا ہوا ہے پھر تمہیں اس میں۔۔۔کوئی عجیب بات بھی نہیں لگتی ہے۔۔۔۔جو لوگ تمہیں لہنگے میں دیکھ کر لہنگے کی درگت پہ ہنس رہے تھے، تم ان کو دیکھ کر شر مار ہی تھیں۔۔۔۔۔ میرے ماں باپ نے مجھ پہ ظلم کیا ہے۔۔۔۔۔”
صفا کی مسکراہٹ مرجھاتی مرجھاتی نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔۔۔۔۔۔ عجیب دھوپ چھاؤں سامنظر تھا چہرے پہ مرتی ہوئی مسکراہٹ، آنکھوں میں بھرے نیر اور کپکپاتے لب۔۔۔۔۔۔جیسے ماں بچے کو ڈانٹ رہی ہو اور بچے کو یقین نہ آرہا ہو جیسے میری ماں مجھ سے نفرت نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔بیک وقت آنکھوں میں امید اور مایوسی ناچ رہی تھی۔۔۔۔۔
” تو اُس دن آپ مجھ سے اظہار محبت کرنے نہیں آئے تھے۔۔۔۔۔؟”
“اگر میں ایسا کوئی شوق پالوں تو میری نصیحت ہے میری لاش کو چوک میں لٹکایا جائے۔۔۔۔۔ ”
” آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہو سکتی یا میں محبت کے قابل نہیں ہوں۔۔۔۔۔؟”
“وو من۔۔۔۔۔ فار گاڈ سیک و یک اپ۔۔۔۔۔اور مجھ سے فضول سوال و جواب کرنا بند کرو۔۔۔۔ تم میری پسند نہیں ہو اور جو مجھے پسند نہیں وہ میرا نصیب نہیں بن سکتی۔۔۔۔”
تحمل سے پوچھتے ہوئے وہ اپنے حوصلے پر خود حیران ہوئی۔۔۔۔۔
” تو شادی کیوں کی۔۔۔۔۔؟”
” ابا کا قرض اُتارنے کے لیے۔۔۔۔۔”
صفا نے جھکا سر اٹھا کر اس کا چہرہ دیکھا۔ اس کا خوبصورت مکھڑا، آنکھوں کی سردمہری، لہجے کی اکتاہٹ، صفا کے دل پہ خنجر چلے تھے۔۔۔۔۔
“کیسا قرض۔۔۔۔۔؟”
“بڑے ابا نے بہت بڑی سیاست کھیلی ہے اور اس سازش کا تمہیں وہ خود بتائیں گے پر اتنا یاد رکھو۔۔۔ وہ تمہارے لیے اچھا قابل لڑکا ڈھونڈنے میں ناکام ہوئے تھے اسلئے بلیک میل کرنے کو میں مل گیا۔۔۔۔ پر میں اس جہنم نماشادی کو نہیں چلا سکتا ہوں۔۔۔۔۔ اس سے بہتر ہے ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے ان کو قسطوں میں قرض واپس کر دوں۔۔۔۔مشکل ہو گا مگر میں اس کے لیے تیار ہوں۔۔۔۔ ”
صفا کو لگا اب تو تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونکی گئی پھر بھی وہ بولی۔۔۔۔۔
” آپ جانتے نہیں ہیں گاؤں میں رشتے داروں میں میری کتنی بے عزتی ہوگی۔۔۔۔ لوگ تو باتوں سے مجھے کچا چبا جائیں گے۔۔۔۔ ”
“صفا یہ میر امسئلہ نہیں ہے۔۔۔۔۔”
” کئی لوگ تو یہ کہیں گے میں بد کردار تھی جو شوہر دوسرے دن ہی مجھے چھوڑ گیا۔۔۔۔۔ ”
” کس زمانے میں بس رہی ہو؟ یہ اکیسویں صدی ہے۔۔۔۔ یہاں ایسی دقیانوسی باتوں کی گنجائش نہیں نکلتی
ہے۔۔۔۔۔۔”
“جس معاشرے کی آپ اور میں پیداوار ہیں وہاں بہت کم لوگ ایسے ملیں گے جن کی سوچ نے وقت کے ساتھ ترقی کی ہے ورنہ زیادہ تر تو آپ کے جیسے ہی ہیں۔۔۔۔مجھ پہ تہمت لگتی ہے۔۔۔۔ میر انام محفلوں میں گھروں میں موضوع گفتگو بنے گا۔۔۔۔ سارے ووٹ آپ کے حق میں جائیں گے کہ بیچارہ کس کے ساتھ باندھ دیا گیا۔۔۔۔۔ کرتا بھی تو کیا۔۔۔۔۔۔ میری لا ابالی طبعیت آج میری سب سے بڑی خامی بن جائے گی اس لیے مجھے ایک ڈیل چاہیے۔۔۔۔۔ میں آپ کے خاندان کی لڑکی ہوں، ہمارا بچپن ساتھ گزرا ہے۔۔۔۔۔ اتنا تو حق میر ابنتا ہے کہ میرے ساتھ اتنی سی رعایت برتی جائے۔۔۔۔”
داؤد نے گہری سانس کھینچی جیسے اپنے ضبط کو آزمارہا ہو۔۔۔۔۔۔
“کیا چاہتی ہو۔۔۔۔۔۔ ؟”
” خاموشی سے چلے جائیں۔۔۔۔طلاق کی بات نہیں ہوگی۔۔۔۔”
“نا ممکن۔۔۔۔ میں کوئی ان چاہی سٹرنگ اٹیچڈ نہیں رکھنا چاہتا۔۔۔۔۔”
” یہ کوئی اتنا مشکل مطالبہ تو نہیں ہے۔۔۔ میں کونسا آپ کا دل مانگ رہی ہوں۔۔۔۔ جب تک میں اس صورتحال کو قبول نہ کرلوں، طلاق کی بات نہیں ہو گی۔۔۔۔۔”
” کہا ناکہ ناممکن ہے۔۔۔۔ ادھر گھر والوں کو حقیقت معلوم ہونے کی دیر ہے مجھے فون کر کر کے جینا حرام کر دیں گے بیچاری صفا یہ، بیچاری صفا وہ ۔۔۔۔سمجھ رہی ہو؟؟ یہ نہ تمہیں جینے دیں گے۔۔۔۔نہ مجھے اور میں یہ سب ایک بھیانک خواب سمجھ کر بھولنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔”
” میں وعدہ کرتی ہوں میرے حوالے سے آپ کو کبھی کوئی کال نہیں جائے گی۔۔۔۔ آپ کے سامنے کوئی میرا نام ہی لے جائے تو بن پوچھے طلاق بھیج دیجیے گا۔۔۔۔۔ بات ختم۔۔۔۔”
” اس سے کیا فرق پڑتا ہے طلاق اب ہو یا بعد۔۔۔۔۔جب ہم نے رشتہ ختم ہی کرنا ہے تو آج کیوں نہیں؟ تم اپنے لیے کوئی اور بکرا خرید کر۔۔۔۔۔”
“بس۔۔۔۔۔!! آپ نے بہت بول لیا اور میں نے بہت سن لیا۔۔۔۔” وہ اپنی جگہ سے اٹھی آنسو صاف کئے اور اُس کی جانب پیٹھ کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
” کمرے سے چلے جائیں۔۔۔۔ میرا کوئی پوچھے تو کہ دیجیے گا صفا سو گئی ہے۔۔۔۔فنکشن کے وقت اٹھ جائے گی اُس سے پہلے اس کو ڈسٹرب نہ کیا جائے۔۔۔۔۔”
” میں آج رات کی سیٹ سے واپس جارہا ہوں۔۔۔۔اگر تم اپنا وعدہ قائم نہ رکھ سکو یا اپنی نئی زندگی شروع
کرنا چاہو تو مجھے ایک میسج کرنا پڑے گا۔۔۔۔ اگلے دن طلاق کے پیپر بھیج دیئے جانے ہیں۔۔۔۔ ”
اپنے پیچھے دروازہ بند کر کے وہ تو کمرے سے چلا گیا اور پیچھے کچھ بھی نہ چھوڑ گیا۔۔۔۔ پورے دو مہینوں سے وہ خوابوں کے جھولے میں جھول رہی تھی دن رات ایک کیا ہوا تھا۔۔۔۔ کوئی دس ڈیزائنر رد کرنے کے بعد کہیں جا کر اس کو کسی کا لہنگا پسند آیا تھا۔۔۔۔۔ ولیمے کا جوڑا اس نے خود سکیچ بنا کر ڈیزائنر کو دیا تھا کہ ایسا سٹائل اور کٹ چاہیے ہیں۔۔۔۔۔۔
اچھے سے اچھی چیز پسند کرنے والی صفا کو زندگی نے یہ کیا دن دکھایا تھا۔۔۔۔ اپنے پورے گاؤں میں رعب رکھنے والی لڑکی مزاروں پر حکم چلانے والی کیسے دھتکاری گئی۔۔۔۔ششدر سی کھڑی مسلسل بند دروازے کو تکے جارہی تھی۔۔۔ن وہ جس کے کھانے میں نمک کم تیز ہو جاتا تو وہ شکایتوں سے سارا گھر سر پہ اٹھا لیتی۔۔۔۔
اس وقت یوں لب بھینچے کھڑی تھی جیسے بولنا سیکھاہی نہ ہو یا زبان ہی نہ پائی ہو۔۔۔
کمرے کے باہر قدموں کی چاپ سنتے ہی اُس کے وجود میں حرکت ہوئی آگے بڑھ کر دروازہ اندر سے لاک کر دیا۔۔۔۔ چلتی ہوئی آکر بیڈ کی اکٹھی ہوئی چادر پہ ترچھی لیٹ گئی. گھٹنوں کو پیٹ کے ساتھ ملالیا دونوں بازو ٹانگوں کے گرد لپیٹ لیے۔۔۔۔۔ اس چاہ میں آنکھیں موندیں کہ شاید بھیانک خواب یہیں ختم ہوجائے۔۔۔۔۔۔

Download Link