- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Bandegi e Eshq by Kiran Rafique
Genre: Army Based | Secret Agent Based | Confident Heroine | Forced Marriage | Kidnapping Based | Multi Couples | Romantic Urdu Novel with Happy Ending
Click the link below to download the Novel
Bandegi e Eshq by Kiran Rafique
جیسے ہی اسے ہوش آیا اس نے خود کو ایک کمرے کے بیڈ پر لیٹے پایا۔۔۔۔
میں کہاں ہوں؟
ماہا اپنا سر اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے خود سے بولی۔
جیسے ہی اس کے حواس بحال ہوئے اسے زبیر اور ایمان پھر سے یاد آگئے۔۔
وہ جلدی سے بیڈ سے اٹھی
اور دروازے کی طرف بڑھی جو کہ لاک تھا۔
ماہا نے ذور ذور سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا اور روتے ہوئے بولی۔
کوئی ہے ؟ پلیز دروازہ کھولو مجھے میری ممی اور میرے بابا جان کے پاس جانا ہے ۔۔۔۔ پلیز اوپن دا ڈور۔۔۔۔۔
کافی دیر کھٹکھٹانے کے بعد بھی جب در وازہ نہ کھلا
تو ماہا کمرے میں موجود صوفے پر بیٹھ گئی اور اللہ سے شکوہ کرنے لگی۔
یااللہ تو نے کیوں میرے بابا اور ممی کہ ساتھ یہ کیا؟
تو جانتا ہے نہ کہ ان کی مجھے کتنی ضرورت تھی۔۔۔ میرے
بھائی کو تو تو نے اپنے پاس بلا لیا تھا پھر میرے ممی اور بابا کو کیوں بلایا۔۔۔۔۔۔
بابا جان تو کہتے تھے کہ تیرے ہر کام کے پیچھے کوئی بہتری ہوتی ہے
لیکن آج جو کچھ ہوا اس میں کیا بہتری تھی؟؟؟؟؟
وہ بول رہی تھی جب کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک تیس سال کا آدمی اندر داخل ہوا ۔۔۔۔
ماہا نے آہٹ پر سر اٹھایا اور اس آدمی کو دیکھا جو ہوس بھری نظروں سے ماہا کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
ماہا ایک آخری کوشش کرنے کے لئے آگے بڑھی اور بولی۔۔۔۔
پلیز مجھے جانے دو ۔ میرے ممی بابا کو میری ضرورت
ہے۔۔۔۔۔
اس آدمی نے ایک ذور دار تھپڑ ماہا کے گال پر مارا
جس کے نتیجے میں ماہا اس سے چار قدم کے فاصلے پر گری اور اس کے ہونٹ سے خون نکلنا شروع ہوگیا۔۔۔
ماہا نے ڈر اور ناسمجھی کے ملے جلے تاثرات سے اس شخص کو دیکھا۔۔۔۔
میرے بس میں ہوتا تو تمہیں جان سے مار دیتا
کیونکہ تم نے حنان لغاری مطلب جبران لغاری کے چھوٹے بھائی کے منہ پر تھپڑ مارا تھا۔
لیکن میں ایسا کروں گا نہیں جانتی ہو کیوں ؟؟؟؟
جبران لغاری نے ماہا کے دونوں جبڑے ایک ہاتھ میں ذور سے دبوچتے ہوئے پوچھا۔
جواب میں ماہا کی تکلیف کی شدت بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔
میں بتاتا ہوں ۔۔۔ جب مجھے پتہ چلا تھا نہ کہ ڈی ایس پی زبیر ملک کی بیٹی
نے میرے بھائی کو تھپڑ مارا ہے تو یقین جانو اسی وقت تمہیں جان سے مارنے کا سوچ لیا تھا۔
لیکن جب تمہیں پہلی بار دیکھا تو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہوگیا۔۔۔
پھر میں نے فیصلہ کیا کہ اس چڑیا کے سارے پر کتر کر اسے ماروں گا۔۔۔
اور خدا کو بھی شاید یہی منظور تھا اس لئے تو تم آج میری گاڑی سے ٹکرا گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔
جبران لغاری اس کے دائیں گال کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے شیطانی مسکراہٹ لبوں پر سجا کر بولا۔
جبکہ ماہا کے آنسو روانی سے بہہ رہے تھے۔۔۔
ویسے ماننا پڑے گا تم ہو بہت ہی خوبصورت۔۔۔۔۔۔
یہ بول کر جبران لغاری نے اس کا چہرہ اپنے چہرے کے نزدیک کیا ہی تھا
کہ کسی نے دروازہ ناک کیا۔۔ جبران لغاری نے غصے سے ماہا کو دیکھا
اور اسے چھوڑتا ہوا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔
کیا ہے؟ ؟؟؟
سامنے ایک آدمی کو کھڑا دیکھ کر جبران لغاری چلانے والے انداز میں بولا۔
سر معافی چاہتا ہوں لیکن حنان سر کی حالت کافی خراب ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔
وہ آدمی نظریں جھکا کر بولا۔
جبران لغاری نے ایک نظر ماہا کو دیکھا پھر وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔۔
میں کہاں جائوں؟ ؟؟ ماما۔۔۔۔ عابی ۔۔۔
بھائی کہاں ہیں آپ پلیز یہاں آکر مجھے بچا لیں ۔۔۔ یااللہ پلیز ان کو بھیج دے۔۔۔۔۔
ماہا روتے ہوئے خود سے بولی ۔۔۔۔
لیکن کون جانے کے اللہ نے ایک انسان کی آزمائش کہاں تک لکھی ہوتی ہے؟
جب بھی انسان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو بجائے اللہ سے شکوہ کرنے کے صبر مانگنا چاہیے
کیونکہ شکوہ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا پھر بھی
انسان صبر ہی کرتا ہے تو پہلے ہی صبر مانگ لو ۔۔۔
کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر اس لڑکی نے کھانا کھانے سے منع کر دیا ہے۔۔۔۔
جبران اس وقت اپنے روم میں تھا جب ایک آدمی نے اسے آکر بتایا۔۔۔۔
کیا مصیبت ہے ؟ پچھلے ایک ہفتے سے وہ یہاں ہے لیکن مجال ہے جو تم لوگوں سے سنبھالی جا سکے۔۔۔۔۔
جبران غصے سے اس آدمی کو گھورتے ہوئے اس کمرے کی جانب بڑھ گیا
جہاں اس نے ماہا کو بند کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا
ماہا کو دیکھا جو ڈری ہوئی نیچے فرش پر گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھی تھی۔۔۔۔
کیا مسئلہ ہے تمہارا کھانا کیوں نہیں کھا رہی؟؟؟؟
جبران لغاری ماہا کو بالوں سے پکڑ اٹھاتے ہوئے بولا۔
پلیز مجھے جانے دو یہاں سے۔۔۔۔۔۔
ماہا پچھلے ایک ہفتے سے یہی جملہ بار بار دہرا رہی تھی۔۔۔۔
جانے کیسے دوں تمہیں؟ ؟ تم تو وہ نشہ ہو جس کو چھوڑنے کا جبران لغاری سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔۔۔
جبران لغاری خباثت سے ماہا کے قریب ہوتے ہوئے بولا۔
ماہا نے اس ذور سے دھکا دیا اور بولی۔۔۔
خبردار میرے قریب مت آنا۔۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔ پچھلے ایک ہفتے سے تم میری راتوں کو حسین بنا رہی ہو
اور اب بول رہی ہو کہ قریب مت آنا۔۔۔۔۔
جبران نے شیطانی قہقہ لگایا اور ماہا کا باذو پکڑ کر اسے خود سے قریب کر لیا۔۔۔
جس کے باعث ماہا کی ہلکی سی چیخ نکلی۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔۔
اووو ۔۔۔۔۔ سوری میری جان میں تو بھول ہی گیا تھا کہ تمہیں چوٹ لگی ہے۔۔۔۔۔۔
جبران اس کی بائیں کلائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مصنوعی فکر مندی سے بولا۔
جواب میں ماہا خاموش رہی اور اس سے ہاتھ چھڑوانے لگی۔۔۔۔۔
جس کے باعث اس کی کلائی سے خون نکلنا شروع ہوچکا تھا۔ ۔۔۔۔
چی چی۔۔۔۔۔ اگر اس دن کلائی کاٹنے کی کوشش نہ کرتی تو آج اتنا خون نہ نکل رہا ہوتا۔۔۔۔۔۔
خیر بہت ٹائم ویسٹ کر دیا تم نے میرا۔۔۔
مجھے ایک کام سے جانا ہے اس لئے چپ کر کہ کھانا کھائو۔۔۔ م
جھے تمہاری کوئی شکایت نہ ملے۔۔۔ سمجھی۔۔۔۔۔۔
جبران ماہا کو خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے بولا۔
جواب میں ماہا نے اپنا سر اثبات میں ہلادیا ۔۔۔۔
گڈ گرل۔۔۔۔ رات کو ملتے ہیں ۔۔۔۔۔
جبران اس کا گال تھپتھپا کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔