- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Panah By Nabila Aziz
Genre : 2nd Marriage | Age Difference | Emergency Nikah | Rude Hero | Romantic Novel
Download Link
“گونگی اور بہری کیوں ہوگئی ہو۔”اسے ایک بار پھر تاؤ آیا تو ذور سے ا
س کی کلائی پکڑ کر جھٹکے سے کھینچی اور وہ سلونے پتھر کی مورتی
اس کے اوپر ہی آن گری کرتے ہی اس کی حس و حرکت بیدار ہوئی۔اس نے بوکھلا کر پیچھے ہٹنا
چاہا تھا لیکن اس کی کمر جکڑی جاچکی تھی۔اس نے اس کا حصار توڑ کر نکلنا چاہا لیکن
یہ بھول گئی کہ گرفت افگن افروز جیسے طاقت ور مرد کی ہے۔
“نیں نے تم سے کہا تھا کہ ہر روز تاوان بھرو گی تم اور ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں؟
تم ابھی سے بھاگنے لگی ہو؟ابھی تو پوری زندگی پڑی ہے۔کیسے گزرے گی یہ زندگی؟”
وہ اس کا ڈوپٹہ اس کے گلے سے نکال کر دور پھینک چکا تھا
اور وہ اس بات اور اس کے انداز پہ بپھرگئی تھی۔
“میں ہر تاوان بھرنے کیلیے تیار ہوں بشرطیکہ آپ اپنے ہوش وحواس میں ہو۔
میرے کسی ناکردہ گناہ کی سزا دینی ہے تو مجھ سے نظریں ملا کر دیں
۔آنکھوں پہ نشے کی پٹی چڑھا کر نہیں۔”وہ بھی جواباً اسی کے لب و لہجے میں بولی تھی
جس پر افگن افروز کا ہاتھ اٹھا اور پانچوں انگلیاں اس کے رخسار پہ ثبت ہوگئی۔
“اور میں نے تم سے یہ بھی کہا تھا کہ کبھی بیویوں والے زعم میں آکر مجھ سے بات مت کرنا
۔بات کرنی ہے تو اپنی اوقات میں رہ کر مجھ سے بات کرنا۔ورنہ سارے زعم توڑ کر رکھ دوں گا۔
”اس نے غرا کر اسے یاد دلایا۔اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے۔
“رونا مت۔نفرت ہے مجھے ان آنسوؤں سے۔”ہر بات پہ پابندی تھی۔
وہ گھٹ گھٹ کر رونا چاہتی پھر بھی رو نہیں سکتی تھی۔
“جاؤ۔اپنا حلیہ درست کرکے آؤ۔”اس نے سختی سے کہتے ایکدم اسے بازوؤں کے تنگ گھیرے
سے آذاد کردیا اور وہ تیزی سے اس کے سینے سے الگ ہوئی تھی
جیسے کسی ناقابل برداشت اور اذیت ناک اسیری سے رہائی ملی ہو۔