Tawaif by Hamna Tanveer
Genre : Forced Marriage Base | Rude Hero | Haveliy Base | Love story Base
Click the below link to download the novel
Tawaif by Hamna Tanveer
“کیا ہو رہا ہے یہ سب؟”
ضوفشاں بیگم کی گرج دار آواز گونجی۔
شاہ ویز کی گرفت ڈھیلی پڑی تو مہر نے اسے دھکا دے کر خود سے دور کیا۔
آنکھیں نمکین پانیوں سے تر تھیں۔
شاہ ویز کے چہرے پر ندامت کے کوئی آثار نہیں تھے بلکہ اس کے شیطانی دماغ میں ابھی بھی کچھ چل رہا تھا۔
شاہ ویز نے اپنی شرٹ کے بٹن توڑے پھر شرٹ کا گریبان بھی پھاڑ دیا۔
مہر نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔
شاہ فون کان سے لگاےُ اندر آیا تو نظر ضوفشاں بیگم پر پڑی جو ہکا بکا سی زینے چڑھ رہی تھیں۔
“یہ شریفوں کا گھر ہے کیا بیہودگی مچا رکھی ہے؟”
وہ چلاتی ہوئی چلتی آ رہیں تھیں۔
شاہ کو خطرے کی بو آئی تو ان کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوا۔
ان دونوں کو دیکھ کر شاہ کے حواس جواب دے گئے۔
“بےغیرت شرم نہیں آئی تجھے دیور کے ساتھ یہ حرکتیں کرتے ہوئے؟”
ضوفشاں بیگم نے مہر کو بالوں سے دبوچ لیا۔
مہر کراہ کر انہیں دیکھنے لگی۔
شاہ خاموش شاہ ویز کو دیکھ رہا تھا جس کی حالت ابتر تھی اس کے برعکس مہر کا حلیہ بلکل ٹھیک تھا۔
“کیا ہوا ہے یہاں؟”
شاہ بولتا ہوا آگے آیا۔
ماریہ تماشائی بنی کھڑی تھی۔
“میں بتاتی ہوں تجھے شاہ یہ بے حیا بےغیرت لڑکی شاہ ویز کے ساتھ۔۔۔
اللہ معاف کرے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا میری آواز سن کر
اس نے شاہ ویز کو خود سے دور کر دیا ہاےُ کیسی کمینی عورت ہے یہ شاہ کہاں سے اٹھا کر لایا تھا تو اسے۔۔۔”
وہ چیخ چیخ کر شاہ کو بتا رہی تھیں۔
مہر نفی میں سر ہلاتی شاہ کو دیکھ رہی تھی۔
“مہر یہ سب کیا ہے؟”
شاہ بےیقینی کی کیفیت میں اسے دیکھنے لگا۔
شاہ ویز معصوم سی شکل بناےُ کھڑا تھا مانو اس پر ظلم ہوا ہو۔
“شاہ می میں نے کچھ نہیں کیا بلکہ شاہ ویز میرے ساتھ بدتمیزی کر رہا تھا۔۔۔”
مہر بولتی ہوئی اس کے پاس آئی۔
“بھابھی کیوں جھوٹ بول رہی ہیں آپ؟”
شاہ ویز رونے والی شکل بناےُ بولا۔
“بھائی میں آپ کو بتاتا ہوں کیا ہوا؟میں کمرے سے تیار ہو کر نکلا تو
بھابھی نے مجھے بلایا تو پھر دیکھیں کیا حل کیا ہے میرا۔۔۔”
شاہ ویز نے آنسو بہاتے بات ادھوری چھوڑ دی۔
“ہاےُ میرا بچہ۔۔۔”
ضوفشاں بیگم اسے سینے سے لگاتی ہوئیں بولیں۔
“شاہ نہیں یہ سب جھوٹ ہے میں نے کچھ بھی نہیں کیا یقین کریں میرا۔ شاہ ویز آیا تھا میرے پاس میں تو۔۔۔۔”
شاہ کے تھپڑ نے مہر کو چپ کروا دیا۔
مہر منہ پر ہاتھ رکھے شکوہ کناں نظروں سے شاہ کو دیکھنے لگی۔
سیاہ بادل آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے۔
گھٹائیں چھا رہی تھیں۔
بجلیاں چمک رہی تھیں۔
ہوائیں رخ بدل رہی تھیں۔
نیلا آسمان سیاہ بادلوں سے پوشیدہ ہو چکا تھا۔
مہر کی آنکھوں میں بےیقینی تھی۔
“میں نے تمہیں عزت دی تمہاری خاطر سب سے لڑتا رہا اور تم نے یہ صلہ دیا ہے مجھے مہر؟”
شاہ اسے بازوؤں سے پکڑتا ہوا جھنجھوڑنے لگا۔
مہر کرب سے اسے دیکھنے لگی۔
مہر نے منہ پر قفل لگا لیے۔
آنسوؤں پر وہ قفل نہیں لگا سکتی تھی سو وہ بہتے ہوۓ اپنی
داستان بیاں کر رہے تھے اگر کوئی انہیں سمجھنے والا ہوتا۔
“میں تو پہلے ہی کہتی تھی ایسی بےغیرت گھر نہیں بساتی ان کو سر پر بٹھاؤ تو جوتیاں
مارتی ہیں دیکھ لے اب شاہ۔۔۔”ضوفشاں بیگم تاسف سے بولیں۔
“تم نے ایک بار نہیں سوچا مجھ پر کیا گزرے گی؟”
شاہ کے لہجے میں چوٹ تھی۔
وہ ٹوٹ رہا تھا بکھر رہا تھا لیکن خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی سعی کر رہا تھا۔
مہر نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔
خاموش سر جھکاےُ ان کی گالیاں سنتی رہی۔
شاہ ویز بھی بول رہا تھا اس کے کردار پر نجانے کیسے کیسے
بھتان لگاےُ جا رہے تھے لیکن مہر سن نہیں رہی تھی۔
شاید اس میں سننے کی سکت باقی نہ رہی تھی۔
وہ ان سب کے بیچ تو کھڑی تھی لیکن شاید اندر سے مر چکی تھی۔
اس کی روح پر وار کیا گیا تھا اور ایسا وار تھا کہ جس کے بعد حیات ممکن نہیں۔
“ایسے لچھن شریفوں کے نہیں ہوتے مجھے تو اول روز سے ہی یہ کھٹکتی تھی۔۔۔”
ضوفشاں بیگم کہاں خاموش رہنے والی تھیں۔
“شاہ اس بےغیرت کو میرے گھر سے نکال دے ورنہ میں خود اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر کر دوں گی
خود بےحیائی پھیلا کر میرے معصوم بچے پر الزام تراشی کر رہی ہے یہ شاہ۔۔۔”
ضوفشاں بیگم چلا رہیں تھیں۔
دکھ بڑھتا جا رہا تھا۔
کرب غصے میں تبدیل ہوتا جا رہا تھا۔
شاہ کے چہرے پر چٹانوں کی سی سختی تھی۔
مہر کا ہاتھ پکڑا اور چلنے لگا۔
مہر اس کے ساتھ چلتی جا رہی تھی۔
شاہ تقریباً اسے گھسیٹ رہا تھا۔
ماریہ کا چہرہ کھل اٹھا۔
ضوفشاں بیگم شاہ ویز کو دیکھتی اثبات میں سر ہلانے لگیں۔
شاہ حویلی کے گیٹ پر آ گیا۔
چوکیدار نے اسے دیکھ کر گیٹ وا کر دیا۔
“میں نے تمہیں کہا تھا جس دن تم نے مجھ سے بےوفائی کی میں تمہیں اپنی زندگی سے نکال دوں گا۔ یاد ہے؟۔۔”
شاہ اس کا چہرہ اوپر کرتا آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔
مہر کی آنکھیں کرب سے آہ و پکار کر رہیں تھیں۔
شاہ نے اسے باہر دھکا دے دیا۔
مہر لڑکھڑائی بروقت اس نے گیٹ کو تھام لیا ورنہ گر جاتی۔
اس وقت وہ یہ بھی بھول گیا کہ وہ اس کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔
اس کی کوکھ میں ایک معصوم جان پل رہی ہے۔
آسمان بھی شاید اس کے غم میں برابر کا شریک تھا۔