Raqs e Mehtab by Kiran Rafique

Genre: Wanni Based | Childhood Nikah | Forced Marriage | Age Difference Based | Class Difference | Long Distance Relationship | Happy ending based Marvelous Novel…. 

Click the below link to download Pdf Novel

Raqs e Mehtab by Kiran Rafique

یہ صبح نجانے کتنے لوگوں کی زندگی بدلنے والی تھی ۔۔۔ ایک طرف خان ہائوس کے مکین تھے

جو ابھی ابھی جوان اولاد کو موت سے نڈھال تھے تو دوسری طرف خوش بخت کے گھر کے مکین تھے۔۔۔

صبح کے نو بجے جرگے کی کاروائی شروع ہوئی تھی۔۔۔ جو آج جرگے کے فیصلے کے منتظر تھے۔۔۔

دونوں طرف سے دلائل دئیے گئے۔۔ لیکن دلاور خان کی طرف سے دلائل کے مضبوطی خوش بخت کی برطرف سے دئیے گئے

تمام دلائل کو مات دے گئی تھی۔۔ تو گویا ایک اور فیصلے کا اختتام ونی پر ہوا تھا۔۔۔ خوش بخت کو ایک گھنٹہ دیا گیا تھا

اپنی بیٹی کو جرگے میں لانے کا جبکہ دلاور خان نے اپنے ایک ملازم کو اکثم کو بلانے کا حکم دیا تھا۔۔۔

بخت خدا کا واسطہ ہے کوئی اور راستہ نکالو۔۔۔ میری معصوم سی بچی ہے وہ۔۔ اسے تو دنیا کا پتہ ہی نہیں ہے ۔۔۔

جانتے ہو نا پانچویں کے بعد میں نے اسے سکول جانے سے روک دیا تھا۔۔۔ اس کی معصومیت کو اتنے سالوں سے بچا رہی ہوں

میں بخت وہ لوگ تباہ کر دیں گے میری بچی کو۔۔۔ ہم یہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔۔۔

مریم ۔۔ میری مجبوری کو سمجھو ۔۔ وہ لوگ قصاص چاہتے ہیں۔۔ جرگے کے فیصلے کے مطابق

یا تو مجھے خان صاحب کو دس کڑوڑ روپے دینے ہوں گے

یا ہانم کا نکاح دلاور خان کے دوسرے بیٹے کے ساتھ کرنا ہوگا۔۔۔

خوش بخت کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔۔۔ وہ بھلا کب اپنی بچی کو خود سے دور کر سکتا تھا

جسے دیکھ کر ہی اس کے سارے دن کی تھکان اتر جاتی تھی۔۔۔

بخت تم ان کو یقین دلاتے نہ کہ تم نے جان بوجھ کر ان کے بیٹے پر گولی نہیں چلائی تھی ۔۔۔

تم ایک چور کا پیچھا کرتے ہوئے گولیاں چلا گئے تھے۔۔۔

اور ادھر سے انکا بیٹا گزر رہا تھا اس لئے اسے گولی لگ گئی۔۔۔

مریم وہی بات دہرا رہی تھی جو پچھلے دو دن سے دہرا رہی تھی۔۔

جب سے اس نے سنا تھا کہ جرگہ بلایا گیا ہے۔۔۔

مریم سب کو یقین آ بھی جائے تو بھی ان کا بیٹا مرا ہے۔۔۔ وہ کسی صورت معاف کرنے کو تیار نہیں ۔۔۔

اپنی جان بھی پیش کر چکا ہوں لیکن انہیں میری جان چاہیے ہی نہیں۔۔۔

بخت کے آنسو بھی ضبط کے سارے بندھن توڑ گئے تھے۔۔۔

ہانم جو مسکراتے ہوئے ہمسائیوں کے گھر سے اپنے گھر میں آئی تھی

سامنے ہی اپنے ماں باپ کو ناسمجھی سے دیکھنے لگی۔۔۔

ابا جان۔۔ کیا ہوا ہے؟؟ آپ رو رہے ہیں کیا؟؟؟

اور امی بھی رو رہی ہے۔۔۔ کیا آپ دونوں کی لڑائی ہوئی ہے؟؟؟

اس کی بات پر مریم کے رونے میں شدت آگئی تھی۔۔۔ ہانم اپنی سمجھ کے مطابق آگے بڑھی اور مریم کے گلے لگ گئی۔۔۔

امی چپ کر جائیں۔۔ ابا تو ہی گندے ہیں۔۔۔ میں پوچھتی ہوں ان کو ۔۔ آپ چپ کر جائو نا۔۔

اپنے چھوٹے چھوٹے سفید اور گلابی ہاتھوں سے وہ مریم کے آنسو صاف کر رہی تھی ۔۔۔

بخت نے اس کے سر پر بوسہ دیا اور نم آنکھوں سے اس کے ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔۔۔۔

ہوسکے تو اپنے ابا کا معاف کر دینا۔۔۔

میری امی سے معافی مانگیں ابا کیونکہ وہ رو رہی ہیں آپکی وجہ سے۔۔۔

اس کی بات پر مریم نے اسے ذور سے خود میں بھینچ لیا۔۔۔

ہانم اندر سے بڑی چادر کے آئو۔۔۔

تھوڑی دیر بعد خوش بخت کی آواز کمرے میں گونجی تھی ۔۔۔

ابا ۔۔ پہلے وعدہ کریں امی سے لڑائی نہیں کریں گے ۔۔ پھر لے کر آئوں گی چادر۔۔۔

اچھا میری ماں نہیں کرتا اب جائو لے کر آئو چادر۔۔۔ تمہیں کہیں لے کر جانا ہے۔۔۔

بخت۔۔۔ میری بچی۔۔۔

مریم کے آنسو کسی صورت کم نہیں ہو رہے تھے۔۔۔ اضطراب تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔

ہانم اندر گئی اور ایک بڑی سی چادر کے آئی۔۔

ہانم اسے اوڑھو اور میرے ساتھ چلو۔۔۔

بخت یہ بول کر باہر کی جانب چلا گیا جبکہ مریم نے ہانم کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔

اپنے ماں باپ سے کبھی بد گمان مت ہونا ہانم۔۔۔ اور جہاں تم جا رہی ہو اب تمہیں وہیں رہنا ہے۔۔۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔۔۔

مریم نے یہ بول کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔۔۔ جبکہ ہانم کے تو سر سے گزر گئی تھیں ساری باتیں۔۔۔

ہانم اپنے باپ کے ساتھ چلی گئی تھی بخت گھرانے کی خوشیوں کو ساتھ لے کر۔۔۔۔ جو شاید کبھی واپس نہیں آنی تھیں ۔۔۔

خوش بخت کا گھرانہ چار افراد پر مشتمل تھا۔۔۔

جس میں خوش بخت، مریم ( خوش بخت کی بیوی ) ہانم خوش بخت کی بڑی بیٹی جو بارہ سال کی تھی

اور ریاح ( چھوٹی بیٹی )  جو سات سال کی تھی۔۔۔اور اس وقت اپنی نانی کے گھر دوسرے گائوں میں تھی۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثم دلاور خان کے بلاوے پر جرگے میں پہنچا تھا ۔۔ لیکن وہاں جا رک اسے جب جرگے کا فیصلہ معلوم ہوا

تو وہ لب بھینچ کر اپنے اندر کے اشتعال کو دبانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔

کیونکہ سرعام وہ اپنے باپ کے فیصلے اختلاف نہیں کر سکتا تھا۔۔۔

خوش بخت ہانم کو جب وہاں لے کر پہنچا تو جرگے میں موجود سب لوگوں نے اسے دیکھا ۔۔

ایک نہیں دیکھا تو اکثم خان نے اسے دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی ۔۔۔

سفید رنگت جس میں گلابی رنگ بھی نمایاں تھا، نیلی آنکھیں، لمبی مڑی ہوئی پلکیں، چھوٹی سی ناک ،

پھولے ہوئے گلابی رخسار، تیکھے نین نقش،  گلابی چھوٹے سے لب، وہ معصومیت سے گندھی

بارہ سالہ  لڑکی وہاں موجود ہر ایک کو اپنی طرف متوجہ کر گئی تھی۔۔۔

مولوی صاحب نکاح پڑھوائیں ۔۔۔

دلاور خان نے اونچی آواز میں کہا۔۔۔

ہانم بخت،ولد خوش بخت آپکا نکاح اکثم خان ولد دلاور خان سے

دس ہزار روپے سکہ رائج الوقت طے پاتا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے۔؟؟؟

مولوی کے الفاظ پر ہانم نے کوئی جواب نہیں دیا ۔۔۔

وہ تو جرگے کے قریب تھوڑی دور کھڑی ایک بکری کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

ابا میں اس بکری کے ساتھ کھیل لوں۔۔ دیکھں کتنی پیاری ہے۔۔۔

ہانم اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔۔

اس کی بات سب جرگے والوں نے سوالیہ نظروں سے خوش بخت کو دیکھا تھا جبکہ اکثم نے بس ایک نظر ہانم پر ڈالی تھی ۔۔۔

ہاں کھیل لینا پہلے جب یہ چچا کچھ بولیں تو تم نے قبول ہے کہنا ہے ۔۔۔

خوش بخت کی بات پر ہانم کک نیلی آنکھیں خوشی سے چمکی تھیں ۔۔۔ اور اس نے شور ذور سے اپنا سر اثبات میں ہلایا تھا۔۔۔

مولوی نے جب دوبارہ نکاح کے کلمات دہرائے تو ہانم نے قبول ہے کہہ دیا ۔۔۔ تین دفعہ مولوی نے ہانم سے قبولیت لی تھی۔۔۔

اب مولوی کا رخ  سترہ اکثم کی طرف تھا جو زمین پر نجانے کیا تلاش کر رہا تھا۔۔۔

اکثم خان ولد دلاور خان آپکا نکاح ہانم بخت ولد خوش بخت سے دس ہزار روپے سکہ رائج الوقت طے پاتا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے؟؟

اکثم نے ایک نظر اپنے باپ کو دیکھا جو امید سے اکثم کا چہرہ دیکھے رہے تھے۔۔۔

قبول ہے۔۔۔

ایک گہری سانس لے کر اس نے قبول ہے کہا تھا ۔۔ تینوں دفعہ قبول ہے کہ بعد

مولوی نے جب نکاح نامہ ہانم کے آگے بڑھایا اور دستخط کی جگہ اس کا انگوٹھا لگوایا۔۔۔

جبکہ اکثم نے اپنے نام کے دستخط کئے تھے۔۔۔

ابا اب ہاتھ چھوڑ دیں۔۔۔ بکری چلی جائے گی ۔۔۔

ہانم نے خوش بخت کو دیکھ کر کہا۔۔۔

خوش بخت نے بے ساختہ ہاتھ چھوڑا۔۔۔ اور وہ بھاگتی ہوئی بکری کے پاس پہنچی۔۔۔

اس کو ہاتھ لگا کر وہ خوش ہو رہی تھی۔۔۔ جبکہ جرگے میں موجود لوگ اب اپنے گھروں کو روانہ ہو رہے تھے۔۔۔

خوش بخت بھی ایک آخری نظر ہانم لڑ ڈال کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔

سب کے جانے کے بعد اکثم اپنے باپ کے پاس آیا۔۔۔

باباجان۔۔۔ یہ اچھا نہیں ہوا۔۔۔

اکثم کا لہجہ گستاخانہ نہیں لیکن سخت ضرور تھا۔۔۔

کیا اچھا ہے کیا برا اس کا فیصلہ تم مت کرو۔۔ کیونکہ  اس کے لئے میں موجود ہوں ابھی ۔۔۔

اب جلدی سے اس لڑکی کو لے کر گھر پہنچو۔۔۔

دلاور خان یہ بول کر وہاں سے اپنے ملازمتوں کے ساتھ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔۔۔

جبکہ اکثم نے بمشکل اپنا اشتعال کنٹرول کیا تھا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثم کب سے اسے دیکھ رہا تھا جو بکری کے ساتھ پتہ نہیں کون سے راز ونیاز کر رہی تھی۔۔۔

جو ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہے تھے۔۔۔

اکثم کو سمجھ نہیں آ رہی تھی اس لڑکی کو مخاطب کیسے کرے جو اس کی بیوی بن چکی تھی ۔۔۔

اے لڑکی۔۔۔

ہانم نے سر اٹھا کر اکثم کو دیکھا ۔۔۔اور پھر سے بکری کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوگئی۔۔۔

اکثم نے اسے گھورا جو اسے نظر انداز کر گئی تھی ۔۔۔

اے لڑکی میں تم سے مخاطب ہوں ۔۔ بہری ہو کیا؟؟؟

ہانم نے پھر سے نظریں اٹھائیں اور نرمی سے بولی۔۔

جی۔۔۔ بولیں۔۔۔

چلو گھر جانا ہے۔۔۔

تم کون ہو؟ اور میں تمہارے ساتھ گھر کیوں جائوں گی؟؟؟

ہانم کی بات پر اکثم نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔۔۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو نکاح ہوا ہے ہمارا ۔۔۔۔ اور پوچھ رہی ہو کہ میں کون ہوں؟؟؟

نکاح۔۔۔۔

ہانم خود سے بڑبڑائی۔۔۔

ہاں جی نکاح۔۔۔ اب چلو۔۔

اکثم نے غصے سے اسے دیکھا تھا جس پر کوئی اثر نہیں تھا۔۔

نکاح کا کیا مطلب ہے؟؟ اور میں نہیں جا رہی آپکے ساتھ ۔۔ میں اپنے ابا کے ساتھ جائوں گی۔۔۔

ہانم منہ بسور کر بولی۔۔ اکثم نے ضبط سے مٹھیاں بند کیں تھی ۔۔۔

مطلب ہماری شادی ہوگئی ہے اور ہم دونوں میاں بیوی ہیں۔۔

اوو جیسے امی اور ابا ہیں۔۔۔

ہانم لبوں پر انگلی رکھے پرسوچ انداز میں بولی۔۔۔

مجھے پتہ نہیں کیوں لگ رہا ہے کہ تم میرے ہاتھوں قتل ہونے والی ہو۔۔۔

اکثم نے زبردستی اس کا ہاتھ پکڑا اور تقریبا گھسیٹتے ہوئے اپنی گاڑی تک لایا

اور پٹخنے کے انداز میں اسے فرنٹ سیٹ پر بٹھایا ۔۔۔

خود گہرہ سانس ہوا میں خارج کرتا ڈرائیونگ سیٹ پر آیا۔۔۔

اور گاڑی سٹارٹ کرنے لگا جب ہانم کی رونے کی آواز اس تک پہنچی۔۔۔

کیا ہوا تمہیں؟؟ اب رو کیوں رہی ہو؟؟؟

اکثم نے ناچاہتے ہوئے بھی اس سے سرد انداز میں ہوچھا۔۔۔

مجھے ابا کے ساتھ گھر جانا ہے ۔۔۔

وہ چادر کے ساتھ اپنی چھوٹی سی ناک کو صاف کرتے ہوئے بولی۔۔۔

آئندہ اگر اپنے باپ کا نام لیا تو میں جان لے لوں گا تمہاری۔۔۔

اس بار اس  کی دھاڑ سے ہانم کا ننھا سا دل واقعی سہم گیا تھا۔۔۔

لیکن میں نے تو اپنے ابا کا نام لیا ہی نہیں ۔۔۔ ان کا نام تو خوش بخت ہے ۔۔۔

اکثم نے اپنا سر اسٹیئرنگ سے ٹکا دیا ۔۔۔ پاس بیٹھی لڑکی اس کی برداشت کو آزما رہی تھی ۔۔۔

وہ خود کو کمپوز کرتے ہوئے اس کی طرف مڑا اور نرمی سے بولا۔۔

دیکھو لڑکی۔۔۔

ہانم نام ہے میرا۔۔۔

ہانم جلدی سے بولی۔۔۔

اس کی بات مقابل کے لبوں پر مسکراہٹ کی جھلک دکھا کر لمحے میں غائب ہوئی تھی۔۔۔

دیکھو ہانم۔۔۔ آج سے تمہارے ماں باپ جہاں ہم جا رہے ہیں وہ ہوں گے۔۔

مطلب میرے ماں باپ تمہارے ماں باپ ہوں گے۔

وہ تمہارے ماں باپ نہیں ہیں جن کے پاس تم رہتی تھی۔۔ اس لئے ان کو بھول جائو۔۔۔

اس کی بات پر ہانم کی آنکھیں پھر سے نم ہوئی تھیں۔۔۔

اکثم کو لگا وہ بات کو سمجھ گئی ہے اس لئے رو رہی ہے۔۔۔

لیکن اس کے اگلے الفاظ اکثم کو شاک کر گئے تھے۔۔۔

اگر وہ میرے ماں باپ جن کے پاس جا رہی ہوں تو مطلب آپ میرے بھائی ہیں۔۔۔؟؟ کہاں تھے آپ بھائی؟؟؟

لاحول و لاقوت ۔۔۔ خبردار مجھے بھائی کہا۔۔۔ میں بھائی نہیں تمہارا دوست ہوں۔۔۔

لیکن ابھی تو آپ نے کہا کہ آپکے ماں باپ میرے ماں باپ ہیں تو۔۔۔

یہ دیکھو میرے ہاتھوں کی طرف اور چپ کر جائو۔۔۔ میرا سٹیمنا یہیں تک کا تھا۔۔۔

وہ باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر بولا۔۔۔۔

اکثم اتنا تو سمجھ گیا تھا یہ لڑکی معصوم ہی نہیں باتونی بھی تھی ۔۔۔

اسے اس پر ترس آیا لیکن وہ کیا کر سکتا  تھا اپنے باپ کے آگے جو سخت دل ہوگئے تھے۔۔۔۔

ہانم خاموشی سے رونے لگی۔۔۔ شاید اتنی سی بات وہ سمجھ گئی تھی

کہ اس کا باپ اسے چھوڑ کر جا چکا ہے۔

کبھی نا واپس آنے کے لئے۔۔۔ وہ بچی تھی معصوم تھی ۔۔

لیکن باپ کی غیر موجودگی اسے کافی کچھ سمجھا گئی تھی۔۔۔۔

اکثم کے منہ سے بے ساختہ الحمداللہ نکلا تھا۔۔۔ ہانم کی خاموشی پر۔۔۔۔

اسے لگ رہا تھا یہ لڑکی ونی نہیں ہوئی بلکہ اسے سزا دی گئی تھی۔۔۔

باپ سے محبت کی سزا ۔۔۔

جو شاید وقت آنے پر اسے معلوم ہونے والی تھی۔۔۔۔۔

۔

One thought on “Raqs e Mehtab by Kiran Rafique

  1. M says:

    Great novel and amazing amazing correspondence keep up the good work 🤩👏🏻👏🏻

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *