1. Ahang e Eshq by Kiran Rafique

Genre: Army Based | Secret Agent Based |Child abuse | Hostel Life | University Life | Family Bonding | Forced Marriage | Age difference Based |Multi Couples | Happy Ending Based Long Novel

 

Click the link below to download the novel

Ahang e Eshq by Kiran Rafique

صفیہ ۔۔۔۔ یہ اورنج جوس کس کے لئے بنا رہی ہو؟؟؟

وہ جی حازم شاہ کے لئے بنا رہی ہوں کیونکہ وہ ورزش کرنے کے بعد ناشتہ کرتے ہیں۔۔۔۔

ملازمہ نے مئودب انداز میں جواب دیا۔۔۔

ٹھیک ہے ۔۔۔ لیکن شاہ کے آنے میں ابھی ٹائم ہے تو ایسا کرو

تم شاہ کے لئے دوسرا ناشتہ بنا دو اور یہ جو بنا ہے وہ مجھے دے دو۔۔۔۔۔۔

عشال کیچن میں ہی ٹیبل کے نزدیک کرسی کھینچ کر تحکمانہ انداز میں بولی۔۔۔

لیکن بی بی جی وہ ۔۔۔

صفیہ جیسا کہا ہے ویسا کرو ذیادہ زبان مت چلائو ۔۔۔۔

عشال ناگواری سے بولی۔۔۔

اس سے پہلے کے وہ ناشتہ صفیہ عشال کو دیتی حازم جلدی سے کیچن میں آیا

اور اپنی ناشتے کی ٹرے پکڑ کر عشال کے سامنے بیٹھ کر کھانے لگا۔۔۔۔۔

صفیہ ۔۔۔۔ میرا ناشتہ بنائو۔۔۔۔

عشال بمشکل اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے بولی۔۔۔

صرف یہی ایک انسان تھا جس کی اس کے ساتھ دشمنی تھی۔۔۔

حازم نے اسے ایسے اگنور کیا جیسے وہ کیچن میں موجود ہی نہ ہو۔۔۔۔

اور اگنورینس عشال کو ہر بار کی طرح اس بار بھی تپا گئی تھی۔۔۔

شاہ۔۔۔

حازم نے اس کی آواز کو سنا ان سنا کر دیا۔۔۔ وہ بچپن سے ہی اس سے چڑ کھاتا تھا

اور وجہ بابا سائیں کی بے جا حمایت تھی جو وہ عشال کی کرتے تھے۔۔۔۔

شاہ مجھے اگنورینس پسند نہیں ۔۔۔۔۔

وہ دانت پیس کر بولی۔۔۔۔۔

حازم نے ایک سرسری نظر اس پر ڈالی اور پھر سے ناشتے میں مشغول ہو گیا۔۔۔۔۔

عشال نے غصے میں آ کر اس کا ناشتہ زمین پر پھینک دیا
اور حازم کا ضبط یہاں جواب دے گیا وہ صفیہ کا لحاظ کئے بغیر وہ عشال کو ایک تھپڑ رسید کر چکا تھا۔۔۔۔۔
حازم شاہ کی آنکھوں میں اس وقت واقعی خون اتر آیا تھا۔۔۔
وہ اپنا غصہ پتہ نہیں کیسے ضبط کر رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ عشال کا حشر بگاڑ دیتا۔۔۔۔

جبکہ دوسری طرف عشال اپنے دائیں گال پر ہاتھ رکھے پہلے تو بے یقینی اور پھر غصے سے حازم کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔

اور صفیہ کے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے حازم کو اتنے غصے میں دیکھ کر۔۔۔۔۔

وہ جلدی سے کیچن سے باہر نکلی تھی۔۔ کیونکہ یہاں رہ کر وہ عشال کے غصے کا نشانہ نہیں بن سکتی تھی۔۔۔۔

شاہ تم نے مجھے تھپڑ مارا۔۔۔۔۔

یہ تھپڑ بابا سائیں کو تمہیں لگانا چاہیے تھا تا کہ تمہاری اوقات تمہیں معلوم ہوتی۔۔۔۔۔

شاہ کا چہرہ اس وقت کسی بھی تاثر سے پاک تھا۔۔۔

میری اوقات کی بات مت کرو۔۔۔ حازم علی شاہ۔۔۔ یہ تو سب جانتے ہیں

کہ عشال حمدان شاہ جس چیز کو سوچ لے وہ چیز خودبخود اس تک پہنچ جاتی ہے۔۔۔

اور رہی بات بابا سائیں کی تو شاید تم بھول رہے ہو میں ان کی لاڈلی پوتی ہوں۔۔۔

ہاتھ اٹھانا تو دور کی بات وہ مجھے سخت نظروں سے دیکھ بھی نہیں سکتے ۔۔۔۔۔۔۔۔

عشال غصے سے غراتے ہوئے بولی۔۔۔
یو نو واٹ عشال شاہ۔۔۔۔ یہ بابا سائیں کا ہی بے جا لاش پیار ہے جو تم نہایت ہی ضدی،بدماغ، خود سر اور باغی لڑکی ہو
جسے خود کے علاوہ باقی سب کم تر نظر آتے ہیں ۔۔۔ لیکن پتہ ہے کیا
وہ وقت دور نہیں جب اللہ تمہاری انا کو توڑے گا اور تم آسمان سے نیچے زمیں پر گرائی جائو گی۔۔

وہ یہ بول کر جانے کے لئے پلٹا لیکن پھر کچھ یاد آنے پر رکا ۔۔ اور بولا ۔۔۔

اور ہاں ایک بات اور یہ جو آج تم نے حرکت کی ہے نہ آئندہ اگر کرنے کا سوچا بھی

تو یاد رکھنا کہ آج تو صرف ایک تھپڑ مارا ہے اگلی بار سیدھا ہاتھ توڑوں گا۔۔۔

حازم جانتا تھا اگر وہ مزید وہاں رکا تو اپنا آپ کھو دے گا اس لئے وہاں سے چلا گیا

جبکہ عشال اس کی بات پر اور اسکی حرکت پر غصے سے پیچ و تاب کھا کر رہ گئی۔۔۔۔

تمہیں اس کا بدلہ چکانا ہوگا حازم علی شاہ اور یاد رکھنا

عشال شاہ تمہیں وہاں چوٹ دے گی جہاں تمہیں تکلیف ساری زندگی رہے گی۔۔۔

عشال نے دل میں سوچا۔۔۔ لیکن جیسے ہی اس کی نظر سامنے کیچن کے دروازے پر پڑی وہ ساکت رہ گئی تھی۔۔

کیونکہ سامنے حمدان شاہ کھڑے تھے اور ان کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ سب سن اور دیکھ چکے ہیں۔۔۔۔

حمدان شاہ نے ایک نظر عشال کو دیکھا جو سر جھکا گئی تھی

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *